لاہور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے کیس میں ساڑھے دس سال قید کی سزا سنا دی۔
عدالت نے حافظ سعید سمیت چار افراد کو دو مقدمات میں سزائیں سنائیں، جن میں پروفیسر ظفر اقبال اور یحییٰ مجاہد کو ساڑھے دس، دس سال جبکہ پروفیسر حافظ عبدالرحمٰن مکی کو 6 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔
جج ارشد حسین بھٹہ کی عدالت میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی طرف سے درج مقدمہ نمبر16/19 اور 25/19 پر فیصلہ جمعرات کوسنایا گیا۔
عدالت نے حافظ سعید اور دیگر ملزمان کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادیں اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 کی شق 11 ق 2 کے تحت بحق سرکار ضبط کرنے کا بھی حکم دیا۔
پروفیسر حافظ محمد سعید جولائی 2019 سے گرفتار ہیں اور ان کے خلاف اب تک چار مقدمات کے فیصلے سنائے جا چکے ہیں۔
جماعت الدعوۃ کے رہنماؤں کے خلاف سی ٹی ڈی کی طرف سے کُل 41 مقدمات درج ہیں۔جن میں سے 24 مقدمات کے فیصلے ہو چکے ہیں جبکہ باقی اے ٹی سی عدالتوں میں زیرسماعت ہیں۔
عدالت کے فیصلے کے مطابق مجرمان ابھی سنائی جانے والی سزائیں اور گذشتہ سزائیں بیک وقت ایک ساتھ کاٹیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حافظ سعید کے وکیل عمران گل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ 'یہ سزا لاہور میں درج فنڈ کلیکشن کے مقدمے کے فیصلے میں سنائی گئی، جو باقی سزاؤں کے ساتھ بیک وقت چلے گی۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ 'حافظ سعید اس وقت لاہور کی ایک جیل میں ہیں، یحیٰ مجاہد شیخوپورہ کی ایک جیل میں جبکہ حافظ مکی اور ظفر اقبال بھی لاہور کی جیلوں میں قید ہیں۔ ہم نے پہلی سزاؤں کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل دائر کی ہے جبکہ حالیہ سنائی جانے والی سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ ابھی کرنا باقی ہے۔'
حافظ محمد سعید پر سی ٹی ڈی نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں زمینیں خریدنے اور فنڈز اکٹھا کرنے کی پاداش میں مختلف مقدمات درج کیے تھے۔
اقوام متحدہ نے سلامتی کونسل کی قرارداد 1267 کے تحت حافظ سعید پر اثاثوں، بیرونی سفر اور اسلحہ رکھنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔
اسی طرح فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے بھی حکومت پاکستان سے کالعدم تنظیموں کے خلاف سخت ایکشن کو پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالنے سے مشروط کر رکھا ہے۔
حافظ سعید کون ہیں؟
حافظ محمد سعید کی پیدائش 1948 میں اُس وقت ہوئی جب ان کا خاندان انڈیا سے پاکستان پہنچا۔ ہجرت کے اس سفر میں ان کے خاندان کے 36 افراد ہلاک ہوئے اور خاندان کا کوئی بچہ زندہ نہ رہا۔
حافظ محمد سعید کا بچپن صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا میں گزرا جہاں انہوں نے اپنی والدہ سے قرآن حفظ کیا اور گاؤں کے اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے بعد مزید تعلیم کے لیے اپنے ماموں اور معروف سلفی عالم دین عبد اللہ بہاولپوری کے پاس بہاولپور چلے گئے، جہاں انہوں نے دینی تعلیم اپنے ماموں سے حاصل کی۔ ان کے ساتھ ان کے ماموں زاد کزن عبدالرحمن مکی نے بھی دینی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ دونوں لاہور آ گئے اور پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔
1990 کی دہائی میں انہوں نے لشکر طیبہ اوردعوت الارشاد کی بنیاد رکھی اور ایک مشن کا آغاز کیا۔ فاؤنڈیشن بنا کر دُکھی انسانیت کی خدمت بھی کی۔ ان پر کشمیر جہاد میں بھرپور شمولیت اور مظفرآباد میں جہادی کیمپوں کی نگرانی کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔ اس کے بعد باقاعدہ تنظیم سازی کے بعد انہوں نے 1986ء میں ایک ماہانہ میگزین ’الدعوہ‘ کی اشاعت کا آغاز کیا۔ اُسی وقت مرکز دعوت الارشاد کی تشکیل بھی عمل میں آئی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس تنظیم کا کام تبلیغ و فلاح کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے مختلف رسائل اور جرائد کے علاوہ مختلف فلاحی کاموں کا بھی سہارا لیا گیا۔ ان میں سرفہرست تعلیمی اداروں کا قیام تھا۔ مرکز الدعوۃ کے زیراہتمام ملک کے مختلف علاقوں میں مدارس کھولے گئے۔
حافظ سعید نے زیادہ توجہ پنجاب کے دیہات اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر مرکوز رکھی اور اس مقصد کے لیے انہوں نے پنجابی مجاہدین کو سرگرم رکھا- حافظ سعید نے اپنی سرگرمیوں کے لیے لاہور کے نواحی قصبے مرید کے میں قائم مرکز طیبہ بنایا۔
بھارت میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف جہاد کے کئی واقعات میں عالمی سطح پر ان کا نام گونجنے لگا۔ پاکستان اور بھارت کے مذاکرات میں کئی بار حافظ سعید کی گرفتاری اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔
حافظ سعید، عبدالرحمن مکی اور دیگر رہنماؤں پر پابندیوں اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ اُس وقت شدت اختیار کرگیا جب القاعدہ اور کئی کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کے ساتھ ان کا نام جوڑا گیا۔