ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض غزل اور نظم دونوں اصناف میں اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔ انقلابی نظریات اور حق بات کہنے پر انہیں متعدد بار قید وبند کی صعوبتیں بھی اٹھانا پڑیں۔
دنیا بھر میں فیض کی شاعری کو آج بھی سراہا جاتا ہے۔ انہیں اپنی اسی خوبصورت شاعری کے لیے مختلف انعامات سے بھی نوازا گیا جس میں نشانہ امتیاز اور لینن پیس ایوارڈ بھی شامل ہے۔
فیض کی انقلابی شاعری نے جہاں مختلف ادوار میں چلنے والی بیشتر تحریکوں مں روح پھونکی وہیں عوام میں انقلابی جذبات ابھارنے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔
یہاں تک کہ اب تو ہمسایہ ملک بھارت کے طالب علم بھی اپنی تحریکوں میں فیض کا کلام پڑھ کر روح گرماتے ہیں۔
فیض احمد فیض کی شاعری کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا۔ دور حاضر میں بھی عالمی شعرا ان کی مزاحمتی شاعری سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔
فیض احمد فیض 20 نومبر 1984 کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی چھوٹی بیٹی منیزہ ہاشمی نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ وہ آج بھی اپنے والد کے لمس کو محسوس کر سکتی ہیں۔
فیض کو بطور والد کیسا پایا اور کونسی بات آج بھی یاد آتی ہے؟
’میری ایک ہی شکایت ان سے رہی اور ان کے جانے کے 36 برس بعد بھی مجھے وہی شکایت ان سے ہے کہ میں نے انہیں بہت کم دیکھا اور ان کے ساتھ بہت کم وقت گزارا۔ اس میں ان کا قصور بھی نہیں تھا کیونکہ بہت عرصہ تو وہ جیل میں رہے۔ اس کے علاوہ ان کی بہت سی ایسی مصروفیات ہوتی تھیں جن کی وجہ سے وہ گھر سے دور رہتے تھے۔ پھر ان کی اخبار کی نوکری ایسی تھی جو آج کی طرح کمپیوٹر کے ذریعے نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ رات میں خود جاکر اخبار نکالتے تھے اور پھر صبح آ کر سو جاتے تھے۔ جب وہ صبح سو رہے ہوتے تھے تو ہم سکول چلے جاتے تھے اور جب ہم سکول سے واپس آتے تھے تو وہ دفتر چلے جاتے تھے۔ اس میں میرا قصور بھی تھا کیونکہ میں نے بھی ان کے ساتھ رہنے کے لیے اتنا زیادہ وقت یہ سمجھ کر نہیں نکالا کہ ابھی بہت وقت ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ وقت کم ہوتا ہے اور آپ کو اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔‘
منیزہ ہاشمی نے بتایا کہ انہیں اپنے والد کی دو باتیں سب سے زیادہ یاد آتی ہیں۔
’میرے والد ایک مخصوص خوشبو لگایا کرتے تھے۔ وہ مہک مجھے آج بھی یاد ہے اور کئی مرتبہ یوں ہوا ہے کہ میں کہیں جا رہی ہوں اور مجھے ویسی ہی خوشبو آئی تو میں تھوڑی دیر کے لیے چونک جاتی ہوں۔ دوسری بات جو مجھے یاد آتی ہے وہ یہ کہ ان کے ہاتھ بہت نرم تھے۔ میں آج بھی ان کے ہاتھوں کا لمس محسوس کر سکتی ہوں۔ میرے ایک پوتے کے ہاتھ بالکل میرے والد کی طرح نرم ہیں۔ میں جب اس کا ہاتھ پکڑتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے والد کے ہاتھ کو پھر سے چھو لیا ہو۔‘
کیا فیض شاعر ہونے کی وجہ سے کھوئے کھوئے رہتے تھے؟
’یہ ضیا الحق کے دور کی بات ہے۔ میں پی ٹی وی میں نوکری کر رہی تھی۔ وہ میرے بڑے سخت دن تھے۔ میں نے اپنے والد کو ایک خط لکھ کر بتایا کہ میرے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے۔ انہوں نے اپنے خط میں مجھے بڑے پیار سے جواب لکھا اور کہا ’تم ہماری طرح خود کو سوئچ آف کر لیا کرو‘ یہ بات ان کی بہت خوبصورت تھی۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھ سے یہ بات بہت سے لوگوں نے کہی کہ فیض صاحب اپنے آپ میں ہی گم رہتے تھے۔ ہم بات بھی کر رہے ہوتے تھے تو یوں لگتا تھا کہ وہ کہیں اور ہیں۔ میرے خیال میں اس وقت وہ اسی سوئچ آف کرنے کا طریقہ اپناتے تھے۔‘
کیا فیض احمد فیض گھریلو کاموں میں دلچسپی لیتے تھے؟
منیزہ ہاشمی کا کہنا تھا: ’نہیں گھریلو کاموں میں ان کی دلچسپی نہیں تھی، ایسا نہیں کہ وہ کھانے پکا رہے ہیں یا بچوں کو سمبھال رہے ہیں۔ یہ سارا کنٹرول میری والدہ کا تھا وہی گھر چلاتی بھی تھیں اور گھر کو اور ہمیں دیکھتی بھی تھیں۔ میرے والد کے تو کپڑے بھی میری والدہ بچوں کی طرح نکالتی تھیں۔‘
فیض کی مقبولیت آج بھی بڑھتی جا رہی ہے کیا اس کی وجہ ہمارے سیاسی حالات ہیں جو آج بھی وہی ہیں جو ان کے دور میں تھے؟
’فیض احمد فیض کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ اپنے وقت سے آگے کے انسان تھے۔ یہ ایک بڑے آدمی کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ آنے والے وقت کو دیکھ بھی لیتا ہے۔ اس کی پیشن گوئی بھی کرتا ہے۔ لوگ بھی جب ان سے ہنس کر پوچھتے تھے کہ یہ کلام تو آپ نے 1956 میں لکھا تھا اور اب تو 1970 ہے۔ یہ تو لگتا ہے کہ آج ہی لکھا ہے تو وہ ہنس کر کہتے تھے ’تم لوگ اپنے حالات ہی نہیں بدلتے، ہم نے تو لکھ دیا سو لکھ دیا۔‘
منیزہ ہاشمی کہتی ہیں کہ وہ تو اب اکثر بہت سنجیدگی سے یہ بات سوچتی ہیں کہ وہ بہت خوش ہیں کہ ان کے والد اس وقت زندہ نہیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ایک آدمی جو اتنا پرامن ہو، انسانیت کی بات کرے، پیار کی بات کرے، حقوق کی بات کرے اور کوشش کرے کہ لوگ ایک دوسرے کی بات سنیں، تو میرے خیال میں انہیں ان وقتوں میں بہت تکلیف ہونی تھی جب معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہو چکا ہے۔‘
اگر آج فیض ہوتے تو ان کا پیغام کیا ہوتا؟
’پیغام تو وہ دے گئے، اور اگر وہ پیغام ہم پڑھ لیں، سن لیں، سمجھ لیں تو ہمارے لیے یہی بہت ہے۔ راہ دکھانے والا شخص اپنے وقت میں ایک ہی بات کہتا ہے اور اس پر کھڑا رہتا ہے۔ فیض بھی جو کچھ لکھ گئے آپ اسے پڑھیں اور سمجھیں اور پھر اس کو اپنائیں۔ فیض دراصل امید کا پیغام دے گئے ہیں۔‘
منیزہ ہاشمی کہتی ہیں کہ دنیا میں ہمیں اس وقت کوئی بھی فقدان نظر آتا ہے تو وہ لگتا ہے کہ جیسے امید کم ہو گئی ہے۔ خاص طو پر جب نوجوان نا امیدی کی بات کرتے ہیں تو دل بہت دکھتا ہے کیونکہ اس کی تو آگے زندگی پڑی ہے تو وہ کیوں ناامید ہو رہا ہے۔ ایسے وقت میں فیض کا پیغام ’لمبی ہے غم کی شام، پر شام ہی تو ہے دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے‘ یاد آتا ہے۔
فیض گھر فیض احمد فیض کا پیغام نئی نسل تک پہنچانے میں کیا کردار ادا کر رہا ہے؟
منیزہ ہاشمی کہتی ہیں: ’ہم نے 12، 14 برس قبل فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ بنایا کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ ہم ان کی صد سالہ برسی شان و شوکت سے منائیں اور ہم نے منائی یہ 2011 کی بات ہے۔ اس کے بعد ہمیں ایک چھوٹی سی جگہ ملی جہاں ہم نے فیض گھر قائم کیا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا گھر تھا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ گھر کسی نے ہمیں دیا تھا جس میں ہم نے ایک چھوٹی سے تنظیم بنائی۔‘
منیزہ کہتی ہیں کہ کرونا وبا کے دنوں کو تو بھول جائیں لیکن اس سے پہلے فیض گھر میں اتنی سرگرمیاں ہوتی رہی ہیں جس میں ہم نے بہت سے نوجوانوں کے ساتھ ایک رابطہ جوڑا۔
گذشتہ پانچ برس سے فیض فیسٹیول ہو رہا ہے اس میں الحمرا کے اندر 25 سے 30 ہزار لوگوں کی گہما گہمی ہوتی ہے۔ ’اس برس میں سوچ رہی تھی کہ شہر کتنا اداس ہے کہ لوگوں نے پوچھ پوچھ کر ہمارا سر کھا لیا ہے کہ فیض میلہ کب ہو گا؟ ظاہر ہے حالات ایسے نہیں ہیں کہ ہم فیسٹیول کریں پر امید ہے کہ ہم اگلے برس پھر سے فیض میلہ منائیں گے۔‘
’ہم نے پورا ارادہ کر لیا ہے کہ 12 سے 14 فروری 2021، فیض فاؤنڈیشن، گلوبل فیض میلہ آن لائن کرنے جا رہا ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، گھر بیٹھ کر اس میلے میں شرکت کر سکیں گے۔ اس میلے کے ذریعے فیض کا پیغام پوری دنیا تک مزید پھیلے گا اور اس کے ذریعے ہم آپ کو امید کا پیغام دیتے رہیں گے۔‘