وزیراعظم عمران خان اور وزارت خارجہ سے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تب تک تسلیم نہیں کرے گا جب تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا، اس کے باوجود سوشل میڈیا پر یہ بحث تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
کچھ معروف صحافیوں کے ٹویٹس اور پھر اینکر مبشر لقمان کی اسرائیلی ٹی وی پر حاضری نے اس تاثر کو مزید تقویت دی ہے کہ حکومتی حلقوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے پر کچھ نہ کچھ چل رہا ہے۔
ٹوئٹر پر اس بحث کا آغاز تب ہوا جب 12 نومبر کو وزیراعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں یہ کہا کہ ان پر دباؤ ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے۔ وزیراعظم کے انٹرویو کے بعد اینکر مبشر لقمان نے ایک اسرائیلی ٹی وی چینل کو 17 نومبر کو انٹرویو دیا جس میں پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات پر بات ہوئی۔
مبشر لقمان کے بعد 23 نومبر کو صحافی کامران خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ پاکستان کو اپنی اسرائیل پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
Pakistan must also revisit it's Israel policy. Message for we Pakistanis from the Custodians of the Holy Mosques and other brothers in the Arab world.“Nations don't have permanent friends or enemies, only interests” Why is Pakistan shy of exercising its options?
— Kamran Khan (@AajKamranKhan) November 23, 2020
کامران خان کی ٹویٹ کی تائید صحافی غریدہ فاروقی نے کی۔
Totally endorse. Been saying the same. https://t.co/7d72Fp6FXR
— Gharidah Farooqi (@GFarooqi) November 23, 2020
اس سب کے بعد سے پاکستان کا ٹوئٹر کا بازار گرم ہوا اور بیشتر افراد اسرائیل کو نہ تسلیم کرنے کے حق میں ہیں۔ آج ٹوئٹر پر #PakistanReject_Israel اور #MubashirLuqman ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ اس خبر کے فائل کرنے تک #PakistanReject_Israel ٹرینڈ سے پچاس ہزار سے زائد ٹویٹس ہو چکی ہیں۔
ایک ٹوئٹر صارف شیراز نے پاکستانی پاسپورٹ کا عکس شیئر کیا جس میں لکھا ہے اور ’یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔‘ شیراز نے اس عبارت کو حوالہ بناتے ہوئے لکھا کہ ’بحث یہیں ختم ہو جاتی ہے۔‘
End of discussion #PakistanReject_Israel pic.twitter.com/BCPa543UJ6
— ShErAz (@SherazSays_) November 25, 2020
ایک اور صارف خرم سلیم نے لکھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب ہے کہ ’ہم اپنے بانی قائداعظم کے اسرائیل اور فلسطین مسئلے پر موقف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔‘ انہوں نے سوال کیا کہ ’کیسے ہم اسرائیلیوں کی فلسطینیوں پر بربریت کو محض اپنے مفادات کے لیے نظر انداز کر سکتے ہیں؟‘
#PakistanReject_Israel
— Khurram Salam (@PROPaki8) November 25, 2020
Accepting Israel means that we would be rejecting the stance of our founder Quaid-e-Azam on Israel-Palestine issue.
How can we ignore their brutality against Palestinians and their stance against Islam just for the sake of our interest. pic.twitter.com/NmjCF3DVwY
انٹیلی جنس بیورو کے ایک سابق افسر عامر مغل نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے تواتر سے ٹویٹس شیئر کی ہیں جن میں اسرائیل کے خلاف تنقیدی مواد ہے۔
صحافی ملک محمد وقاص نے کامران خان کی ایک ٹویٹ کے جواب میں لکھا، ’کوشش کریں آپ بھی ویزا لے لیں اور اسرئیل چلے جائیں تم جیسوں کی جگہ وہاں ہے، بیت المقدس سب کا پہلا قبلہ ہے اور جب تک وہ آزاد نہیں ہوتا تب تک انشا اللّه ایسا نہیں ہو گا۔‘
کوشش کریں آپ بھی ویزا لے لیں اور اسرئیل چلے جائیں تم جیسوں کی جگہ وہاں ہے ہے ، بیت المقدس سب کا پہلا قبلہ ہے اور جب تک وہ آزاد نہیں ہوتا تب تک انشاء اللّه ایسا نہیں ہو گا https://t.co/Hey4g77MAd
— Malik Muhammad Waqas (@MMWaqasAwan) November 25, 2020
ایک اور صحافی فیاض چوہدری نے بھی کامران خان کو کچھ ایسا ہی لکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ظالم کا ہاتھ روک نہیں سکتے تو کم از کم دل مہیں برا جان لو۔‘
خان صاحب آپ اسرائیل چلے کیوں نہیں جاتے؟ کیا جان اللہ کو نہیں دینی جو مظلوم کی بجائے ظالم کی طرف داری کررہے ہو؟ ظالم کا ہاتھ روک نہیں سکتے کم از کم دل میں ہی برا جان لو، سب گند کھا رہے ہیں تو یہ دیکھ کر کیا ہم بھی وہی کام شروع کردیں؟ https://t.co/gy8UCgqCpd
— Fiaz Chaudhary (@FiazMahmood) November 25, 2020
اس کے برعکس ٹوئٹر پر اس معاملے میں کچھ افراد حقیقت پسندی کا پرچار کرتے نظر آئے۔
تجزیہ کار حسان خاور نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم صرف اپنے قومی مفاد کو دیکھ کر کرنا چاہیے اور اگر ایسا ہونا ہے تو اس سے پہلے اندرون ملک بیانیہ بدلنے کے لیے بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے۔
#Pakistan should decide on #Israel's recognition only based on its national interest
— Hasaan Khawar (@hasaankhawar) November 23, 2020
The tide is definitely changing, with #AbrahamAccords & now the Israeli PM-MBS meeting
But if that has to happen, there's a lot of groundwork that needs to happen internally to change narrative https://t.co/YNpU58Q7VZ
لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ہارون اسلم نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’ہم ایک اہم ملک ہیں۔ ہمیں اپنے فیصلے خود لینے چاہییں اور ہم لیں گے اور کسی کر دباؤ میں آ کر نہیں بلکہ اپنے قومی مفاد کو دیکھتے ہوئے۔
Israel and Middle East are cozying up. People ask “where do we stand?” Few recommend following suit. Don’t underestimate yourself. We are an important country. We should and will take our decision not under pressure but for our national interest. #Israel #Saudi #arab #Netanyahu
— Lt Gen M Haroon Aslam, (Retd) (@AVeteran1956) November 23, 2020
ایک ٹوئٹر صارف مسٹر شامی کا یہ کہنا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ ان کی رائے میں دنیا بھر کا طاقتور ترین پاسپورٹ ہے اور اس پر واضح لکھا گیا ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ دنیا بھر میں کارآمد ہے۔
According To my Opinion Green Passport is the Most powerful passport around the world when everyone read this line..#PakistanReject_Israel pic.twitter.com/tXfAAmNYBp
— Mr-Shami08 (@MrShami08) November 26, 2020