کوئی بھی عام شخص اگر کسی شخص کو کالا کوٹ پہنے ہوئے دیکھے گا تو اسے یہ اندازہ لگانے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی کہ موصوف کا تعلق پیشہ وکالت سے رہا ہو گا۔
لیکن اس کے برخلاف کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ صحافی ہونے کی کیا نشانی ہے؟ کیا کسی کو مائیک پکڑے دیکھ کر آپ اسے صحافی سمجھ بیٹھتے ہیں؟ یا کسی کا پریس کارڈ دیکھ کرآپ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ صحافی ہے؟
بد قسمتی سے ہم یہ آج تک طے ہی نہیں کر سکے کہ صحافی اصل میں کہتے کسے ہیں۔ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ میڈیا کی اخلاقیات کیا ہوتی ہیں، ہمیں ان تمام باتوں سے کوئی غرض نہیں ہے۔
پاکستان میں کسی کو بھی شعبہ صحافت میں آنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ بس اسے خیال آ جائے کہ اسے صحافی بن جانا چاہیے۔ اس خیال میں ہی ایسا جادو ہے کہ آپ خود مشاہدہ کریں گے کہ کچھ دیر پہلے ایک بندہ اچھا بھلا پھر رہا تھا لیکن اب وہ باقاعدہ صحافی بن چکا ہے۔
اس بیچارے کو یہ تک معلوم نہیں کہ خبر ہوتی کیا ہے لیکن وٹس ایپ گروپوں کی مہربانی کی وجہ سے اس کی خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں، حتیٰ کہ بڑے بڑے نیوز چینلوں کے اینکرز یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ سر ہم نے تو انجنیئیرنگ یا ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کی، صحافت تو بس اپنے جذبے کے تحت کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صحافت کا اتنا ہی جذبہ تھا تو صحافت کی تعلیم کیوں نہ حاصل کر لی؟ کیا وطنِ عزیز میں مجھے بھی اختیار حاصل ہے کہ میں بھی کمپوڈری سیکھ کے ڈاکٹر کہلواؤں؟
ملک میں چونکہ بیروز گاری کی شرح بھی بہت زیادہ ہے اس لیے لوکل اخبارات دلفریب عمومیات سے لوگوں کو بے وقوف بناتے نظر آتے ہیں (یہاں پر تمام لوکل اخبارات کی بات نہیں کی جا رہی، کہ اچھے برے ہر جگہ ہوتے ہیں)۔
ایک نہایت ہی دلکش اشتہار آپ کے سامنے ہوتا ہے کہ فلانے اخبار کو نمائندگان کی ضرورت ہے، تعلیم کی کوئی قید نہیں، تجربہ کچھ نہیں چاہیے، بس دلچسپی رکھنے والے مرد و خواتین رابطہ کریں۔
اس قسم کے اشتہارات زیادہ تر ایسے اخباروں کی طرف سے شائع ہوتے ہیں جن کی سر کولیشن خود دو گلیوں تک کی بھی نہیں ہوتی۔ اس قسم کے اشتہارات جب سادہ لوح لوگ دیکھتے ہیں تو وہ اس نمائندگی کو نوکری سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ان کا گمان یہ ہوتا ہے کہ نمائندگی کا مطلب اخباری ملازم ہونا ہے، اس کا ہمیں کچھ نہ کچھ تھوڑا بہت معاوضہ ملتا رہے گا۔
ایسے لوگوں کو سہانے خواب دیکھا کر پریس کارڈ اور سکیورٹی کے نام پر ہزاروں روپے اینٹھ لیے جاتے ہیں اور دلاسے کے طور پر ’معقول تنخواہ‘ کا عندیہ بھی دے دیا جاتا ہے۔ معقول تنخواہ تو دور کی بات ہے اس بیچارے کو کوئی اعزازیہ تک نہیں ملتا، ہاں یہ ہے کہ وہ ایک اخبار کے ساتھ بطور صحافی ضرور نتھی ہو جاتا ہے۔
ایسے اخبارات کے نام بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوتے۔ پچھلے دنوں میری نظروں سے ایسا ہی ایک اشتہار گزرا۔ اخبار کا نام تھا ’شیطان نیوز‘ اور ان کو پورے پاکستان سے نمائندگان کی فوری ضرورت تھی۔
میں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ان سے رابطہ کر کے پوچھا آپ نے اخبار کا نام شیطان نیوز ہی کیوں رکھا؟ تو آگے سے جواب ملا کہ ہمارا اخبار لوگوں کے شیطانی کاموں کو منظرِ عام پر لائے گا۔
چلیں ان کی بات مان لیتے ہیں لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اخبارات کی شیطانی لوٹ مار سے عام آدمی کو کون بچائے گا؟
عام حالات میں ظلم و زیادتی کا شکار فرد اپنی آواز میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتا ہے لیکن ایسے حالات میں خود میڈیا ہی مظلوم اور اعلیٰ حکام کے درمیان گیٹ کیپر بن جاتا ہے جس کی وجہ سے مظلوم کی آواز متعلقہ اداروں تک نہیں پہنچ پاتی۔
لوکل اخبارات کی جانب سے حکومتی اشتہارات کی بندش کا رونا بھی رویا جا رہا ہے اور اخبارات بند کرنے کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں، لیکن دوسری طرف نمائندگان بھرتی کرنے والے اخباروں کا بھی ایک سیلاب آیا ہوا ہے جو نمائندگی کے پیسوں پے پھل پھول رہے ہیں اور ہر ایرے غیرے کو صحافت کے جعلی سر ٹیفکیٹ بانٹتے پھر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے لوگ پیشہ ور صحافی کو بھی شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔
حکومت کو چاہیے صحافت پر پابندیاں لگانے کی بجائے اس بارے میں کوئی واضح پالیسی مرتب کرے۔ جیسے ایک وکیل کو پریکٹس کرنے کے لیے لائسنس درکار ہوتا ہے اسی طرح کوئی بھی انجنیئیر تب تسلیم کیا جاتا ہے اگر اسے پاکستان انجینیئرنگ کونسل انجینئیر تسلیم کرے۔ ٹھیک اس طرح کے ہی قوانین ہوا بازی اور طب کے شعبوں سے متعلق بھی ہیں۔
اسی طرح صحافت بھی باقاعدہ ایک پروفیشنل شعبہ ہے ملکی درسگاہوں سے ہر سال سینکڑوں طلبہ جرنلزم کی ڈگریاں لے کر نکلتے ہیں۔ میرے خیال سے ایک صحافی کو بھی انڈر لائسنس ہونا چاہیے تا کہ اس کا ایک کرائی ٹیریا بن سکے اور لوگوں کو بھی یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ کسے اصلی صحافی کہنا ہے اور کسے عطائی صحافی۔
اور تو اور ہم نے ادب اور صحافت کو بھی مکس کر رکھا ہے۔ آج کل کا دور چونکہ میڈیا کا دور ہے اس لیے آج کا ادیب بھی خود کو صحافی کہلوانا پسند کرتا ہے۔ اس کا فائدہ اسے یہ ہوتا ہے کہ ایسے اسے میڈیا کی تھوڑی بہت ہمدردی مفت میں حاصل ہو جاتی ہے۔ اس طرح کا ادیب جب اخباری کالم لکھ کر اسے سوشل میڈیا پر شئیر کرتا ہے تو خالص اخباری کالم کو آرٹیکل کا نام دے دیا جاتا ہے۔
کالم چونکہ کسی بھی طرح سے ادب کی صنف نہیں ہے اس لیے ایسی غلطیاں ایسے لوگوں کے پول کھولنے کے لیے کافی ہوتی ہیں کہ وہ صحافت کا کتنا دم بھر رہے ہیں اور کس حد تک صحافت سے ابھی نابلد ہیں۔
خدارا صحافت پر رحم کریں۔ جس چیز کا علم ہی حاصل نہیں کیا تو اس کا کریڈٹ بھی نہ لیں۔ باقی بات رہی آرٹیکل اور کالم میں فرق کی تو اسے کسی اگلے موضوع کے لیے ادھار چھوڑ دیتے ہیں۔