سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں صحافیوں کے ایک گروپ نے اپنے اوپر مخالف گروپ کے صحافیوں کی جانب سے انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرانے کے خلاف جمعرات کو ملٹری روڈ پر واقع ورلڈ گلوب چوک پر قلم جلا کر احتجاج کیا۔
احتجاج میں شامل امداد پھلپٹو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صحافیوں کے دو گروپوں میں کشیدگی کافی عرصے سے جاری ہے جس کے دوران 14 سے زائد صحافیوں پر چھ کیس درج ہوچکے ہیں۔ جن میں کچھ مقدموں میں انسداد دہشتگردی ایکٹ بھی لگایا گیا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ پنو عاقل میں سات صحافیوں بشمول ساحل جوگی، عاشق جتوئی، حضرت گل پٹھان، نثار چنجن، رستم انڈھڑ، شیر سمیجو، ارشاد انڈھڑ اور الطاف کلوڑ پر انسداد دہشتگردی کا مقدمہ درج کیا گیا۔ اس کے علاوہ پنو عاقل تھانے میں ایک اور مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے جس میں بھی ساحل جوگی، نثار چنجن، حضرت گل اور عاشق جتوئی کا نام شامل کیا گیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ 16 ستمبر 2019 کو تھانہ کچو کیٹی، ضلع کشمور ائٹ کندھ کوٹ میں ان کے خلاف اغوا برائے تاوان کا مقدمہ درج کیا گیا جس میں دیگر دفعات کے ساتھ انسداد دہشتگردی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
امداد پھلپٹو نے دعویٰ کیا کہ کچھ عرصہ پہلے انھوں نے ایک نجی اردو ٹی وی چینل پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کی جانب سے ایک سرکاری سکول کی بلڈنگ پر قبضہ کر کے ذاتی بنگلو بنانے والی سٹوری بریک کی جس کے بعد خورشید شاہ کے ذاتی دوست بااثر صحافیوں نے ان کے خلاف لوگوں کو استعمال کرکے مقدمات درج کروائے۔
انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو نامہ نگار امر گرڑو سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ سکھر پریس کلب کے سابقہ صدر لال اسد پٹھان نے خورشید شاہ والی سٹوری کے بعد ان پر مقدمات درج کروائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا: ’لالا اسد پٹھان نے خورشید شاہ کے خلاف لگنے والی خبر اور اس کے علاوہ ہماری جانب سے سکھر پریس کلب میں جعلی صحافیوں کی ممبرشپ پر اعتراض اٹھانے پر مختلف لوگوں کے ذریعے ہمارے خلاف سرکاری مدد سے انسداد دہشتگردی کے مقدمات درج کرائے۔ اگر اس ملک میں سچ لکھنا جرم ہے تو صحافت کا قلم کس کام کا؟ اس لیے آج ہم نے احتجاج کیا ہے کیونکہ اگر ریاست صحافیوں کو تحفظ نہیں دے سکتی اور بااثر افراد کے کہنے پر انصاف اور میرٹ کا قتل ہوتا رہے گا تو ہم صحافی اپنا قلم کیسے استعمال کرسکتے ہیں۔ اس سے تو بہتر ہے ہم اپنا قلم جلا دیں۔‘
سکھر پریس کلب کے سابقہ صدر لالا اسد پٹھان نے رابطہ کرنے پر انڈپینڈنٹ اردو سے بذریعہ ٹیلی فون بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ان کو مورد الزام ٹھہرانے والوں نے ایسے الزام پہلے بار نہیں لگائے بلکہ پچھلے کئی سالوں سے ان پر الزامات لگ رہے ہیں۔
ان کے بقول: ’مجھ پر الزام لگانے والے لوگوں کی اگر گھر کی بجلی بھی کٹ جاتی ہے یا بھر گھر میں گندا پانی آتا ہے تو بھی الزام مجھ پر لگاتے رہے ہیں، یہ لوگ بلیک میلر ہیں اور ان کی سکھر پریس کلب کی ممبرشپ بھی ختم کی گئی ہے، اور تو اور ان کے میڈیا ہاؤسز نے بھی ان کو نکال دیا ہے۔ اس سے زیادہ میں کچھ اور نہیں کہنا چاہتا۔‘
احتجاج میں شریک اردو ٹی وی چینل سے وابستہ ساحل جوگی نے کہا کہ پچھلے مہینے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد سکھر آئے تو وہ کوریج کے لیے وہاں گئے تھے۔ بعد میں انھیں سکھر سے متعصل روہڑی شہر کے ایک صحافی عبداللہ چاچڑ کی فون کال رکارڈنگ کا ایک آڈیو ملا جس میں عبداللہ مبینہ طور پر کسی کو بتا رہے تھے کہ اس دن وہ ساحل قتل کرنے کے لیے چاقو لے کر آئے تھے۔ ’مگر میں دوسرے دروازے سے نکل گیا ورنہ مارا جاتا۔‘
ساحل نے مزید کہا: ’میں نے اس واقعے کی درخواست پولیس کو دی مگر پولیس نے اس پر مقدمہ کرنے کے بجانے اس کے مدعیت میں میرے خلاف ہی مقدمہ درج کر لیا۔‘
نجی ٹی وی چینل سے تعلق رکھنے والے عبداللہ چاچڑ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ساحل جوگی کی جانب سے بھیجے گئے آڈیو پیغام کے متعلق سختی سے تردید کی اور کہا کہ انھوں نے کبھی بھی ایسا نہیں کیا اور آڈیو پیغام میں ان کی آواز نہیں ہے بلکہ کسی اور کی آواز کو بگاڑ کر ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا: ’ساحل جوگی ایک بھتہ خور حضرت گل پٹھان کی پشت پناہی کر رہا ہے اور انھوں نے مجھ پر حملہ کیا تھا جس کا میں نے مقدمہ درج کروایا۔‘
سندھ، خاص طور پر شمالی سندھ میں کچھ عرصے سے صحافیوں پر انسداد دہشتگردی کے تحت مقدمات درج ہونے کا چرچا ہے جس میں پولیس پر تنقید کی جا رہی ہے کہ بغیر تحقیق کے صحافیوں کے خلاف انسداد دہشتگردی کے مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔
رابطہ کرنے پر ایس ایس پی سکھر عرفان علی سموں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’پولیس نے آج تک کسی جید صحافی پر ایک بھی مقدمہ انسداد دہشتگردی کے تحت نہیں درج نہیں کیا۔ ہاں کچھ عطائی صحافی جو کسی بھی صحافتی ادارے سے وابستہ نہیں اور وہ غیرقانونی شراب اور گٹکا بیچنے میں ملوث ہیں اور سوشل میڈیا کا استعمال کرکے لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں ان کے خلاف کچھ مقدمات درخواست دہندہ کے کہنے پر درج ہوئے ہیں۔ ویسے یہ دو گروپوں میں لڑائی ہے جو کافی عرصے سے جاری ہے اور دونوں گروپ ایک دوسرے پر مقدمات درج کرواتے رہتے ہیں۔‘