صحافیوں کے خلاف ایف آئی اے مقدمات کی خبر: کتنا سچ کتنا جھوٹ؟

جمعرات کی سہ پہر چند وٹس ایپ گروپس میں صحافیوں سمیت 49 سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے خلاف مقدمات درج کیے جانے کا پیغام گردش کرنے لگا، لیکن یہ میسج کہاں سے آیا یا کہاں سے جاری کیا گیا، انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس گردش کرتے میسج کے مطابق صحافیوں کے خلاف مقدمات کی خبر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریاست سے ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے (تصویر: پکسابے)

جمعرات کی سہ پہر صحافیوں کے بہت سے وٹس ایپ گروپس میں یہ پیغام گردش کرنے لگا کہ چند صحافیوں سمیت 49 سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے خلاف شکایات اور ثبوت ملنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سائبر کرائم ایکٹ کے کیس رجسٹر کر لیے ہیں اور جلد نوٹسز بھی جاری کیے جائیں گے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے کی تحقیقات کی تو علم ہوا کہ یہ نہ تو ایف آئی اے کی کوئی پریس ریلیز ہے اور نہ ہی کوئی قانونی نوٹس، بلکہ ایک وائرل وٹس ایپ میسج ہے، لیکن یہ میسج کہاں سے آیا یا کہاں سے جاری کیا گیا یہ معمہ ابھی حل طلب ہے۔

جب انڈپینڈنٹ اردو نے اسلام آباد میں ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں رابطہ کیا تو متعلقہ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے  کی شرط پر بتایا کہ 'ان کی میز پر کسی بھی صحافی کے خلاف کوئی شکایت نہیں آئی اور نہ ہی کسی کے خلاف کیس رجسٹر ہوا ہے۔'

جب  ایف آئی اے راولپنڈی آفس سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی اس بات کی تائید کی کہ میڈیا سے منسلک افراد کے خلاف کوئی کیس یا ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایف آئی اے نےاس ضمن میں کوئی پریس ریلیز  بھی جاری نہیں کی۔

جنگ اور جیو گروپ سے منسلک صحافی عمر چیمہ کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے جن کے خلاف مذکورہ میسج میں کیس کے اندراج کا ذکر کیاگیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے عمر چیمہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ 'انہیں آج کسی میڈیا کے دوست نے بتایا کہ تمام میڈیا کے دفاتر میں بھی یہ میسج جاری کیا گیا اور ہدایت جاری کی گئی کہ اسے ٹی وی پر بھی چلایا جائے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ 'اب اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ میسج کس نے بھیجا اور کہاں سے آیا؟ اگر میڈیا کوریج کے لیے ایک میسج جاری کیا گیا ہے تو کسی سرکاری سطح سے ہی اسے جاری کیا گیا ہو گا کیونکہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ کوئی بھی میسج ٹائپ کرکے گروپس میں ڈال دے اور وہ ٹی وی پر بھی چل جائے۔'

عمر چیمہ نے مزید کہا کہ 'انہیں پتہ چلا ہے کہ چار پانچ ماہ سے کوئی انکوائری جاری ہے اور ثبوت اکٹھے کیے جا رہے تاکہ جو صحافی پسند نہ آئے اس کے خلاف کیس بنایا جائے، تاہم اس حالیہ میسج کے حوالے سے ایسی کوئی تصدیق نہیں ہے کہ کوئی کیسز جسٹر ہوئے ہیں۔'

فہرست میں موجود ایک اور صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں بھی اس حوالے سے کچھ علم نہیں اور نہ ہی کہیں سے کوئی تصدیق ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'جب ایف آئی اے میں کیس کا اندراج ہوتا ہے تو اس سے پہلے انکوائری مکمل ہوتی ہے لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہے اور نہ ہی ان سے کسی نے کوئی رابطہ کیا ہے۔'

مذکورہ صحافی نے کہا کہ 'لگتا ہے سوشل میڈیا سرگرمیوں کو دبانے کے لیے یہ میسج جاری کروایا گیا تاکہ صحافیوں کو دباؤ میں لایا جا سکے۔'

واضح رہے کہ سٹیبلشمنٹ سے قریب سمجھے جانے والے ایک نجی نیوز چینل کی ویب سائٹ پر صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے خلاف ایف آئی اے مقدمات کے اندراج کی خبر موجود ہے۔

دوسری جانب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس گردش کرتے میسج کے مطابق صحافیوں کے خلاف مقدمات کی خبر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریاست سے ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

میسج میں تھا کیا؟

وٹس ایپ پر جاری کیے گئے میسج میں لکھا ہے کہ ایف آئی اے کو پانچ چھ صحافیوں سمیت 49 سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے خلاف چند شکایات جبکہ ٹھوس ثبوت بھی ملے ہیں اور ان ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر ان تمام افراد کے خلاف مقدمات کا اندراج کر لیا گیا ہے اور جلد ہی انہیں نوٹسز بھی جاری کر دیے جائیں گے۔

یہ بھی کہا گیا کہ ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر ان تمام افراد کے خلاف سخت قانونی ایکشن کیا جائے گا جو ریاست، ریاستی اداروں خصوصاً افواج پاکستان کےخلاف سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور ایف آئی اے ان کے خلاف پیکا ایکٹ 2016 کے تحت کارروائی کرے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان