افغانستان میں حالیہ مہینوں میں ہونے والے بدترین حملے میں اتوار کو ایک خود کش کار بمبار نے فوجی اڈے کو نشانہ بناتے ہوئے کم از کم 30 فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ حملہ مشرقی صوبے غزنی کے صدر مقام غزنی شہر کے نواح میں کیا گیا جہاں اس سے قبل طالبان اور سرکاری فوج کے مابین طویل عرصے سے لڑائی جاری تھی۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا جب حکومت اور طالبان دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امن مذاکرات میں مصروف ہیں۔
دھماکے کے بعد غزنی ہسپتال کے ڈائریکٹر باز محمد ہیمت نے اے ایف پی کو بتایا: ’30 لاشیں اور 24 زخمی افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا اور یہ سب سکیورٹی اہلکار ہیں۔‘
افغان وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آرایان نے بتایا کہ ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی کو فوجی اڈے میں اڑا دیا۔ غزنی کے گورنر کے ترجمان وحید اللہ جمعہ زادہ نے بتایا: ’حملہ آور بارود سے بھری گاڑی کو اڈے کے اندر لے آیا تھا۔‘
ابھی تک کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ غزنی میں یہ حملہ تاریخی شہر بامیان میں دو بم دھماکوں کے نتیجے میں 14 افراد کی ہلاکت کے کچھ ہی دن بعد ہوا ہے۔
اتوار کو ہی صوبہ زابل کے جنوبی شہر قلات میں ایک اور خود کش دھماکے میں ایک شخص کی ہلاکت اور 20 کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ صوبہ زابل کے صوبائی پولیس سربراہ حکمت اللہ کوچی نے اے ایف پی کو بتایا کہ اتوار کی صبح خودکش کار بم حملے میں ایک شہری ہلاک اور 20 دیگر زخمی ہوگئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ اس حملے میں زابل کی صوبائی کونسل کے سربراہ عطا جان حقبیان کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا جو خود بھی زخمی ہوئے۔اتوار کے ہونے والے بم دھماکے افغانستان میں تازہ ترین تشدد کی لہر کا حصہ ہیں جہاں 12 ستمبر کو قطری دارالحکومت دوحہ میں امن مذاکرات کے آغاز کے بعد سے ہی تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
کابل میں حالیہ ہفتوں کے دوران ایسے حملوں میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں تعلیمی مراکز پر دو حملے اور ایک راکٹ حملہ بھی شامل ہے۔ کابل میں ہونے والے تینوں حملوں کی ذمہ داری داعش گروپ نے قبول کی تھی لیکن افغان عہدے داروں نے طالبان کو ان حملوں کے لیے مورد الزام ٹھہرایا، جو ان حملوں سے انکار کرتے ہیں۔