گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے لیے 15 نومبر کو ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو دیگر سیاسی جماعتوں پر برتری حاصل ہوئی اور پی ٹی آئی نے نو منتخب رکن اسمبلی خالد خورشید کو نیا وزیراعلیٰ منتخب کیا، جنہوں نے آج اپنی ذمہ داریوں کا حلف اٹھایا۔
خالد خورشید نے گلگت بلتستان کے ضلع استور کے حلقہ 13 سے انتخابات میں حصہ لیا تھا، جہاں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار عبدالحمید خان کو 1719 ووٹوں سے شکست دی۔
1980 میں پیدا ہونے والے خالد خورشید کا تعلق ضلع استور کی تحصیل شونٹر کے سیاسی گھرانے سے ہے۔ ابتدائی تعلیم پبلک سکول اینڈ کالج گلگت سے حاصل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے اور کوئین میری یونیورسٹی آف لندن سے وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پاکستان واپس لوٹے۔
خالد خورشید نے ضلع استور کے حلقے سے 2009 اور 2015 میں آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔ انہوں نے 2018 میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور بعد میں گلگت بلتستان کے استور دیامر ڈویژن کے پارٹی صدر منتخب ہوئے۔
سیاسی کیریئر
خالد خوشید کے والد محمد خورشید خان 1970 میں، جب گلگت میں پہلی مرتبہ رائے بالغان کا قانون پاس کیا گیا، گلگت ایڈاوئزری کونسل کے رکن تھے اور بعد میں گلگت کے چیف جج بھی بنے تھے۔
گلگت سے تعلق رکھنے والے سینئیر صحافی شبیر میر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خالد خورشید علاقے میں اتنی مقبول سیاسی شخصیت نہیں ہیں کیونکہ وہ سیاست کو کم وقت دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ 'خالد خورشید کو پی ٹی آئی میں شامل ہوئے صرف دو سال ہوئے ہیں اور ان کو وزیراعلیٰ منتخب کرلیا گیا جبکہ پی ٹی آئی کے پرانے ساتھی اور گلگت کے صدر سید جعفر شاہ کے انتقال کے بعد گلگت اسمبلی کے پی ٹی آئی کے نو منتخب رکن فتح اللہ پارٹی میں ان سے سینئیر تھے۔'
شبیر میر نے بتایا: 'فتح اللہ پانچ سال پہلے پی ٹی آئی میں آنے سے پہلے مسلم لیگ ن میں تھے۔ وہ بھی پہلے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں لیکن ان کو کوئی کامیابی نہیں ملی تھی لیکن اس بار وہ انتخابات جیت چکے ہیں۔ '
خالد خورشید کی زندگی کے بارے میں گلگت کے کچھ سینئیر صحافیوں اور دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے جاننے کی کوشش کی گئی لیکن بہت کم لوگ ان کے بارے میں تفصیل سے جانتے ہیں۔
تاہم ایک مقامی شخص نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'خالد خورشید حلقے میں بہت کم ہوتے ہیں اور زیادہ تر اسلام آباد ہی میں رہتے ہیں۔'
وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ 'کسی کے خیال میں نہیں تھا کہ ان کو وزیراعلیٰ بنایا جائے گا کیونکہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے کچھ سینئیر لوگ بھی کامیاب ہوئے تھے اور لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ ان میں سے کسی کو وزیراعلیٰ بنایا جائے گا۔'
گلگت بلتستان انتخابات
گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کی 23 سیٹوں پر 15 نومبر کو مقابلہ ہوا، جس میں پی ٹی آئی نے نو سیٹوں پر برتری حاصل کی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے تین، مسلم لیگ ن نے دو، جمعیت علمائے اسلام اور متحدہ وحدت المسلمین نے ایک ایک جبکہ سات آزاد امیدوار انتخابات میں کامیاب قرار پائے۔
آزاد امیدواروں میں سے پانچ نے پی ٹی آئی کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ متحدہ وحدت المسلمین جو ایک سیٹ جیت چکی ہے، نے بھی پی ٹی آئی کی حمایت کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد تحریک انصاف نے 15 نشستوں کے ساتھ گلگت بلتستان میں حکومت بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
پی ٹی آئی کے امیدوار کی وفات کی وجہ سے گلگت بلتستان کی ایک نشست پر انتخابات کو ملتوی کیا گیا ہے۔ اس الیکشن میں کل 330 امیداروں نے 33 سیٹوں پر مقابلے میں حصہ لیا تھا، جن میں سے 24 عام سیٹیں، چھ خواتین کی مخصوص نشستیں اور تین ٹیکنوکریٹس کی سیٹیں ہیں۔
اس الیکشن کو جیتنے کے لیے ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں گلگت میں بھرپور انتخابی مہم چلاتی رہیں۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کئی دن تک گلگت میں موجود رہے اور وہاں پر انتخابی جلسوں کا انعقاد کیا۔
اسی طرح پی ٹی آئی نے بھی بھرپور انتخابی مہم چلائی، جس میں پارٹی کے سینئیر عہدیدار بھی شریک رہے۔
اس سے پہلے مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی گلگت میں حکومتیں بنا چکی ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی وہاں کی سیاست میں پہلی انٹری ہے، تاہم جس قانون کے تحت یہ الیکشن منعقد ہوئے، اس کا قانون پیپلز پارٹی نے 2009 میں پاس کیا تھا اور وہاں کے عوام کے لیے ایک الگ قانون ساز اسمبلی بنانے کی منظوری دی گئی تھی۔
گلگت بلتستان کے 2015 میں ہونے والے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نے 21 سیٹوں پر برتری حاصل کی تھی اور پانچ سال کے لیے برسر اقتدار رہی تھی جبکہ 2009 میں پہلی مرتبہ پی پی پی نے 20 سیٹوں سے کامیابی حاصل کرکے وہاں حکومت بنائی تھی۔