کہتے ہیں کنول پھول کی جھیل قدرت کے نایاب نظاروں میں سے ایک ہوتی ہے اور اگر کسی کی فطرت میں لطافت ہو تو اس جھیل کا منظر ایسے شخص کے دل میں اتر جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد کے شاعر خلیق الرحمٰن نے کنول جھیل پر نظموں کی ایک پوری کتاب لکھ ڈالی۔
خلیق الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 1970 کی دہائی کے شروع میں اس وقت کی حکومت نے دارالحکومت کو کنول جھیل کا تحفہ دیا جو شکرپڑیاں کے جنگلات کے بیچ میں واقع تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب حکومتیں بدلیں اور ارد گرد تعمیرات شروع ہوئیں، آمد و رفت میں اضافہ ہوا تو کنول جھیل نظر انداز ہونے لگی۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ جھیل ختم ہو گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس جھیل کے کئی دیوانے تھے جن کے دل اس جھیل کے خشک ہونے سے اداس ہوگئے تھے۔ اسی لیے جب حال ہی میں جب سی ڈی اے نے کنول جھیل کو دوبارہ بنانے کا فیصلہ کیا تو شہریوں میں جیسے خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔
کنول کے پھول کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے خلیق الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کنول کا پھول کئی مذاہب کا حصہ ہے۔ ہندو مائتھولوجی میں برہما کنول کے پھول میں بیٹھا ہوتا ہے۔ اس میں کنول کا پھول کائنات کی عکاسی کرتا ہے اور برہما اس کائنات کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ کنول کا پھول نئی زندگی کی علامت کے طور پر بھی سمجھا جاتا ہے۔ کوئی اسے رومانوی انداز میں دیکھتا ہے اور کوئی دلی سکون کے لیے۔
خلیق الرحمٰن نے مزید کہا کہ جب لوگ یہاں آئیں گے اور بچے قدرت کے اس رنگین نظارے کو دیکھے گے تو ان کو نفسیاتی طور پر اچھا لگے گا اور جب انسان قدرت کے نزدیک ہوگا تو اس میں ایک نرماہٹ بھی پیدا ہوگی۔