پسماندہ قبائلی ضلع مہمند کے دور افتادہ گاؤں منزری چینہ سے لگ بھگ 15 سال پہلے ایک غریب مزدور پشاور کے مضافاتی علاقے پھندو ایک خواب آنکھوں میں لے کر آیا۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کے پانچوں بیٹے جوان ہو جائیں اور وہ مل کر مزدوری کریں گے تو رلا دینے والی مالی حالت قدرے سنبھل جائے گی۔
تب اس غریب مزدور کو کیا معلوم تھا کہ اس کے پانچ میں سے چوتھے نمبر پر بیٹا اجمل اپنی مزدوری کو عظمت اور احترام کے عروج پر بھی لے کر جائے گا۔
چند دن پہلے قصہ خوانی کے نواح میں ایک دھندلی سی شام کو اقبال کا یہ مجسم شاہین 22 سالہ اجمل فاروقی مجھے بظاہر عام سی لیکن جذبے اور ہمت کے حوالے سے ایک مثال بنتی کہانی سنانے لگا۔ آپ بھی سن لیں۔
’ہمارا گھرانہ ایک غریب اور کثیر الاولاد مزدور کا تھا۔ ظاہر ہے ایسے گھروں میں فاقے ہوتے ہیں تعلیم نہیں لیکن میں نے جیسے تیسے میٹرک کر کے اس خاندان کی تاریخ کے سب سے پڑھے لکھے آدمی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ مجھے بھی تو وہی کچھ کرنا تھا جو میرے والد اور میرے بڑے بھائی کرتے چلے آر ہے تھے یعنی صبح سویرے منڈی پہنچ کر ٹرکوں پر سامان لادھنا یا اتارنا۔
لیکن میرا معاملہ گھر کے دوسرے مردوں سے ذرا مختلف تھا اور قدرے مشکل بھی کیونکہ مجھے صرف رزق کی تلاش تو نہ تھی بلکہ علم کا حصول بھی تھا۔ اس حوالے سے میرا ماحول حد درجہ ناسازگار ہی تھا۔
کتاب میرا عشق اور ادب میرا جنون ہی بنے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ غربت اور کم عمری کے باوجود میں اپنے اعتماد کو گرنے اور ٹوٹنے سے بچانے میں کامیاب رھا تاکہ علمی اور ادبی فضا سے الگ نہ ہو پاؤں۔ میں اس میں توقع سے کہیں زیادہ کامیاب بھی رہا کیونکہ شہر کے نامی گرامی ادیب مجھے جاننے لگے تھے حالانکہ میٹرک تک تعلیم 15 سال کی عمر اور رلا دینے والی غربت کے علاوہ تھا ہی کیا؟
مجھے اپنے باپ کا ہاتھ بھی بٹانا تھا اور اپنی دنیا آپ بھی پیدا کرنا تھی۔ سو کچھ دنوں بعد میں پرانے پشاور کے ہشت نگری چوک میں اپنی ٹوٹی پھوٹی ریڑھی اور چمکتے دمکتے خوابوں سمیت نمودار ہوا۔ اگلے چھ سال میری شدید ذہنی اور جسمانی مشقت کے شب و روز تھے۔‘
نوجوان اجمل فاروقی ایک اعتماد کے ساتھ بتاتا رہا کہ اس نے جس دن گورنمنٹ کالج پشاور میں ایف ایس سی میں داخلہ لیا عین اسی دن اسی کالج کے دیوار کے ساتھ شام کو ریڑھی پر فروٹ بیچتا اور اپنے کلاس میٹس سے گپ شپ بھی لگاتا رہا۔ اس شاہین کا یہ روز کا معمول تھا۔ دن بھر کے تمام معمولات دوسرے ہم سبق دوستوں سے مختلف بھی تھے اور مشکل بھی۔
محنت کو عملی طور پر عظمت بناتا نوجوان اجمل فاروقی کالج کا ایک فعال طالب علم تھا۔ کلاس ریپریزنٹیٹو (سی آر) تو وہ تھا ہی لیکن ادب دوستوں کو ساتھ ملا کر کالج کے اندر ایک فعال ادبی تنظیم کی بنیاد بھی رکھی۔ یہاں اسے شہر کے نامی گرامی ادیب بھی پروفیسرز کی شکل میں میسر تھے۔
وہ منفرد افسانہ نگار اور کالم نویس تنویر احمد کا ذکر ایک عقیدت کے ساتھ کرتے ہیں لیکن تاجور تاج الدین سے ڈاکٹر اسحاق وردگ جیسے معروف لکھاریوں کا ذکر بھی جوش سے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مشتاق شباب، ڈاکٹر نذیر تبسم اور مشتاق مجروح یوسفزئی جیسے سینیئر اور جینوئن رائٹرز کی قربت اور احترام بھی اسے حاصل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کتنی حیرت ہوتی ہے نہ کہ دن کا آدھا حصہ اسی قرینے سے گزارنے والا اجمل فاروقی سہ پہر کو اچانک ایک دوسرے روپ میں سامنے آتا یعنی میلے کچیلے کپڑے، بکھرے بال، کھینچتا ہوا ٹھیلا، اکثر ناخواندہ لوگوں سے معاملات، پولیس کی ڈانٹ ڈپٹ پرچے اور عدالتی پیشیاں۔ لیکن وہ بھی پورے چھ سال ڈٹا رہا۔ اس دوران وہ اپنے گھر کو مالی مدد بھی فراہم کرتا رہا اور اپنی پڑھائی کا خرچہ بھی اٹھاتا رہا۔ گورنمنٹ کالج سے ایف ایس سی کرنے کے بعد اس نے یہیں پر بی ایس میں داخلہ لیا اور ہر سمسٹر میں شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے کچھ دن پہلے اپنی ڈگری مکمل کر لی۔ شکر ہے کہ سوشل میڈیا نے ایک باہمت نوجوان کی پذیرائی تو کی۔
اس مثالی نوجوان سے مستقبل کا منصوبہ پوچھا گیا تو رکے بغیر ایک جوش اور اعتماد کے ساتھ بتایا کہ اب وہ ایم فل کی تیاری ہے تاکہ بعد میں پروفیسر کی حیثیت سے اپنی کیریئر کو آگے بڑھا سکے۔
لیکن آپ کا اکیڈیمک ریکارڈ تو بہت شاندار ہے۔ اس سے بہتر کیریئر کی طرف بھی تو جا سکتے ہیں؟
جی بالکل جا سکتا ہوں لیکن میرا مقصد اور شوق تو پڑھانا ہی ہے پیسہ کمانا نہیں۔ ورنہ آج کل ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھانے کی بجائے کسی پلازے کی تعمیر میں لگا ہوتا یا ریڑھی سے ریستوران کا راستہ لیتا۔
بھلا یہ بھی کوئی اتنا مشکل کام ہے؟