یہ ان دنوں کی بات ہے جب الجزائر اور لیبیا کے درمیان بحیرہ روم کے کنارے واقع خوبصورت ملک تیونس کے شہر سيدی بوزيد کا اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان محمد بو عزیزی کوششوں کے باوجود سرکاری ملازمت نہ حاصل کر سکا تو اس نے فاقہ کشی سے تنگ آ کر بالآخر ریڑھی لگا لی۔
ایک خاتون پولیس آفیسر نے اس نوجوان کو بھتہ دینے سے انکار پر تشدد کا نشانہ بنایا۔ بو عزیزی نے سرعام اپنی بےعزتی سے دل برداشتہ ہو کر خود سوزی کر لی۔ موت کو گلے لگاتے وقت بوعزیزی نہیں جانتا تھا کہ اس کے جلتے بدن کے شعلے مشرق وسطیٰ کو بھسم کر دیں گے۔
یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں
اس ظلم پر تیونس کے شہروں میں عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ تین دہائیوں تک لوگوں کی گردنوں پر سوار علی زین العابدین کی آمرانہ حکومت عوامی طاقت کے سامنے نہ ٹھہر سکی۔ صدر زین العابدین کو فرار کے بعد بالآخر سعودی عرب میں انسانی بنیادوں پر پناہ ملی۔ یوں تیونس سے شروع ہونے والے عوامی احتجاج نے آہستہ آہستہ تقریباً پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ لینا شروع کر دیا۔
کچھ ہی مدت بعد الجزائر، اردن اور عمان کی حکومتوں نے بھی اعلان کر دیا کہ وہ بھی اپنے ہاں اصلاحات کرنے جا رہی ہیں، بلکہ اگر ضرورت پڑے تو حکومتیں بھی تبدیل ہو سکتی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے مصری حکومت کے خلاف اسی نوعیت کی تحریک نے سر اٹھایا تو فروری 2011 میں حسنی مبارک کو استعفیٰ دینا پڑا۔ اسی سال 20 اکتوبر کو لیبیا کے کرنل معمر القذافی اپنے ہی عوام کے ہاتھوں قتل ہو گئے اور فروری 2012 میں یمن کے علی عبداللہ صالح ایوان اقتدار سے رخصت ہوئے۔ چار مطلق العنان حکمران ایک برس کے دروان جس تحریک کے دباؤ پر اقتدار سے بےدخل ہوئے، دنیا اسے الربیع العربی یعنی ’عرب بہار‘ کے نام سے جانتی ہے۔
آج ’عرب بہار‘ کے نتائج پر نظر ڈالتے ہوئے یہ حقیقت ہمارا منہ چڑا رہی ہے کہ تیونس سے لیبیا اور مصر سے یمن تک ’عرب بہار تحریک‘ جمہوریت اور آزادی ایسے بڑے آدرش لے کر چلی تھی، وہ اس میں اتنے برے طریقے سے ناکام ہوئی جس کا تصور ایک دہائی پہلے محال تھا۔
لیبیا اور یمن بدترین خانہ جنگی کے شکار ہیں۔ مصر میں ڈاکٹر محمد مرسی کے عبوری جمہوری دور کے بعد حسنی مبارک سے بھی بڑا آمر [السیسی] مسند اقتدار پر فائز ہے۔ تیونس کے علاوہ دیگر تمام ایسے ممالک میں جہاں دس سال پہلے آمریتوں کے خلاف اعتدال پسندوں کی جانب سے تحریک کا آغاز کیا گیا، آج ان کی بڑی تعداد فنا کے گھاٹ اتاری جا چکی ہے، یا پھر پابند سلاسل ہے یا انہیں جلاوطن کر دیا گیا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں ہونے والا احتجاج عشروں سے جاری ملوکیت کے خلاف ردعمل تھا۔ لیکن اس کے پس پردہ اور بہت سے عوامل اور قوتیں کار فرما تھیں جنہوں نے عوامی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مقاصد تک رسائی کے لیے بہترین حکمت عملی سے تیار کردہ منصوبے کو آگے بڑھایا۔
اس منصوبے کا سب سے اہم پڑاؤ شام تھا جہاں روس، ترکی، عرب دنیا، امریکہ اور اسرائیل جیسی عالمی طاقتوں نے اپنا تسلط جمانے کی بھرپور کوشش کی۔ تیل کی دولت سے مالا مال ملک شام کے وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کی جنگ نے لاکھوں زندگیاں نگل لیں۔ شام میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں صدر بشار الاسد سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ حکومت نے ان مظاہروں کو کچلنے کے لیے کیمیائی ہتھاروں سمیت مہلک طاقت کا استعمال کیا۔
’عرب بہار‘ کی ناکامی کی سب سے بڑی قیمت آج شام ادا کر رہا ہے۔ اپنے خلاف پرامن تحریک کے آغاز پر ہی شامی صدر نے کئی اسلامی انتہا پسند جہادی عزائم رکھنے والے قیدی جیلوں سے رہا کر دیئے تاکہ یہ عناصر پرامن حکومت مخالف تحریک میں شامل ہو کر پرتشدد کارروائیاں کریں، جن سے حکومت کو اسد مخالف طبقات کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا جواز ملے۔ تاہم اسد حکومت اس خطرناک پالیسی کو اختیار کرتے ہوئے یہ بات بھو ل گئی کہ ایسا کرنے سے دولت اسلامیہ [داعش] اور ’النصرہ‘ جیسی تنظیمیں بھی وجود میں آ سکتی ہیں، جن پر قابو پانا ایک عالمی چیلنج بن سکتا ہے۔
جن ملکوں میں ’عرب بہار‘ کے پرچم تلے احتجاجی مظاہرے ہوئے وہاں جمہوری معاشرے کے قیام کی راہ تو ہموار نہ ہوئی، لیکن ایک غیر مرئی عنصر جان بوجھ کر افراتفری پھیلا کر قومی وحدت کو پارہ پارہ ضرور کرتا رہا۔ اسد مخالف تحریک میں تشدد در آیا اور اچانک النصرہ اور داعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں منظر عام پر آئیں جو دنیا بھر کے انتہا پسندوں کی حوصلہ افرائی کا باعث بننے لگیں۔ داعش اور النصرہ نے سرحدوں کا کنڑول سنبھال کر اپنا مقصد آسان بنا لیا۔ انہوں نے ریاست کے زیر انتظام چلنے والے سماجی اور اقتصادی ادارے تباہ کر ڈالے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 2011 کے اختتام پر ایک طرف امریکہ، مغربی یورپی ممالک اور ترکی نے اپنے اپنے مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لیے اسد مخالف انتہا پسند جہادی گروپوں کو بھر پور مالی اور عسکری امداد فراہم کرنا شروع کر دی، جبکہ دوسری طرف روس، ایران اور حزب اللہ نے بشار الاسد اور اس کے ہم خیال گروپوں کی حمایت کرنا شروع کر دی۔ اس سب کا نتیجہ اب شام کی تباہی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔
یادش بخیر! اٹھارویں صدی کے دوران فرانس کو بھی اعلی حکام کی بدعنوانی سمیت دیگر مشکلات کا سامنا تھا جن کے خلاف عوام نے کامیاب علم بغاوت بلند کیا۔ انقلاب فرانس اور ’عرب بہار‘ کے درمیان بکثرت مشترکات پائی جاتی ہیں، لیکن عرب، استعماری طاقتوں اور داخلی سیاسی ایجنڈے کو گلے کا ہار بنا کر تقسیم رہے جس کی وجہ سے ان کی تحریک، انقلاب فرانس جیسے نتائج لانے میں ناکام رہی۔
تاہم ’عرب بہار‘ ہتھیار بنانے والی صنعت کے لیے ایک نعمت غیر مترکبہ ثابت ہوئی۔ احتجاجی مظاہروں کے بعد عرب ملکوں میں ہتھیاروں کی خرید کا رحجان بڑھا۔ اس کی وجہ سے روس اور چین ایسے بعض ملکوں کو مشرق وسطیٰ کی منڈی میں قدم جمانے کا موقع ملا۔ ’عرب بہار‘ کی برکت سے ہی روس کو شام میں اپنے دو فوجی اڈوں کی صورت میں واپسی کا موقع ملا۔
مشرق وسطیٰ کے ملکوں کی سلامتی، استحکام اور ان کی حکومتوں کی بقا کا دارومدار علاقائی اور بین الاقوامی اتحادوں مرہون منت بن گیا۔ خاص طور پر شام کی حکومت روسی حمایت سے طاقت کا توازن بشار الاسد کی فوجوں کے حق میں تبدیل کرانے میں کامیاب ہوئی۔
کرنل قذافی کے خلاف شروع ہونے والے انقلاب اور اس کے بعد جاری رہنے والی مسلسل افراتفری نے لیبیا کو تباہی سے دوچار کیا۔ مصر واپس جمود کے دور میں جا چکا ہے اور گذشتہ چند سالوں کے واقعات کی وجہ سے اس کی معیشت خوفناک حد تک تباہ ہو چکی ہے۔ شام میں انقلابیوں کی تمام تر کارروائیوں کے باوجود بشار الاسد اپنی جگہ قائم ہیں۔
عراق بھی دولت اسلامیہ کے طوفان سے نکل آیا ہے، بلکہ لگتا ہے کہ عراق پر سنہ 2003 میں امریکہ اور برطانیہ کی چڑھائی سے شروع ہونے والے خوفناک واقعات کا سلسلہ دم توڑ چکا ہے اور وہاں جمہوریت نے ابھی دم نہیں توڑا ہے۔ اردن میں سیاسی نظام کو جو خطرات درپیش تھے، ان کے باوجود اردن بھی اپنی جگہ پر قائم ہے۔
لبنان بھی ایک اکائی کی شکل میں زندہ ہے۔ الجزائر اور تنزانیہ میں بھی سکون ہو چکا ہے۔ ادھر ترکی بھی ’عزت سادات‘ بچا کر بظاہر مشکلات سے نکل آیا ہے۔
یہ ہے ’عرب بہار‘ کی وہ مختصر داستان جسے ایک بہترین منصوبے کے تحت عملی جامہ پہنایا گیا۔ اس پوری تحریک میں حیران کن طور پر مغربی ممالک یا امریکہ کے خلاف کوئی لفظ بھی سننے میں نہیں آیا اور نہ ہی کوئی مشرق وسطیٰ کے بیچوں بیچ اسرائیلی ریاست کا بال بیکا کر سکا۔
فلسطین، یمن، شام، لیبیا، تیونس، مصر اور اب تک مشرق وسطیٰ کی خانہ جنگی میں لاکھوں انسان مارے جا چکے ہیں، لیکن بحیرہ روم کے ساحل پر قابض ریاست ’اسرائیل‘ امن وشانتی کی ایک مثال بنی ہوئی ہے۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا ہے؟ کیا ’عرب بہار‘ ایک مصنوعی ہیولہ تھا جس نے امید کا جھانسہ دے کر پورے خطے کو انارکی کی گود میں لا پھینکا۔