پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع مہمند کے ایک چھوٹے بارانی ڈیم میں گذشتہ روز اچانک سے سینکڑوں مچھلیاں ہلاک ہوگئیں جس کی وجہ اب تک سامنے نہیں آ سکی ہے۔
صوبائی محکمہ ماہی گیری کی جانب سے مچھلیوں کی اس طرح سے اچانک ہلاکت کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کا آغآز کر دیا گیا ہے۔
یہ چھوٹا ڈیم لوئر مہمند کے علاقے پنڈیالی میں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا اور محکمہ ماہی گیری اس ڈیم کو مچھلیوں کی افزائش کے لیے بھی استعمال کر رہا تھا۔
قبائلی ضلع مہمند کے محکمہ ماہی گیری کے ڈائریکٹر عبدالقادر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ بارانی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بنایا گیا چھوٹا سا ڈیم ہے، جسے ان کا محکمہ مچھلیوں کی افزائش کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔
مچھلیوں کی ہلاکت کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جب بارشیں کم ہوتی ہیں تو اس ڈیم میں پانی خشک ہو جاتا ہے اور پھر کم پانی میں ہی مچھلیاں رہتی ہیں۔ ’چند ماہ پہلے بھی یہ ڈیم خشک ہو گیا تھا اور محکمے کی جانب سے اس میں افزائش کے لیے چھوڑی گئی مچھلیاں ڈیم کے اطراف میں موجود تھوڑے سے پانی میں زندہ تو تھیں مگر آکسیجن کی کمی کا خطرہ موجود تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بارشوں کی وجہ سے ڈیم میں پانی دوبارہ ذخیرہ ہو گیا جس کی وجہ سے اس میں پہلے سے موجود مچھلیوں کے انڈوں سے بچے نکل آئے تھے، جو تقریباً دو انچ کے تھے۔ گذشتہ روز وہی مچھلیاں ڈیم میں مردہ پائی گئی ہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں: ’ہم نے ڈیم کا دورہ کیا اور ہمیں ہلاکت کی وجہ پانی میں آکسیجن کی کمی لگی، جسے آکسیجن ڈپلیشن کہا جاتا ہے کیونکہ بعض اوقات اس طرح کی چھوٹی جگہ پر بنائے گئے ڈیم میں آکسیجن کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اصل وجوہات کے لیے ہم نے پانی اور مچھلیوں کے نمونے متعلقہ لیبارٹری کو بھیجوا دیے ہیں اور اس کی رپورٹ کے آنے کے بعد اصل وجہ سامنے آجائے گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہلاکت کے وجوہات میں بیماری، پانی میں زہریلی دوا کا استعمال یا کرنٹ لگنا بھی ہو سکتا ہے۔
کتنی مچھلیاں ہلاک ہوئی ہیں؟
اس حوالے سے قادر نے بتایا کہ اس کا اندازہ ابھی لگانا مشکل ہے کیونکہ اس میں پہلے سے انڈے موجود تھے اور پانی کے بعد ہیچ ہو کر ان میں سے بچے نکلے لیکن ہلاکتوں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سکیورٹی کے حوالے سے عبدالقادر نے بتایا کہ ہمارے محکمے میں ریسورسز اور سٹاف کی کمی ہے، جس کی وجہ سے ہر ایک ڈیم کو سٹاف فراہم نہیں کر سکتے کیونکہ مہمند میں تقریباً 16 کے قریب چھوٹے ڈیم موجود ہیں اور ہر ایک کو دن رات سٹاف فراہم کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں۔
پولیس کی جانب سے بھی اس کیس کو دیکھا جا رہا ہے۔ لوئر مہمند کے ڈپٹی سپرٹنڈنٹ آف پولیس پشم گل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ پانی میں زہر ملایا گیا ہے لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آئے۔
انہوں نے مزید کہا: ’اس ڈیم سے علاقے کے جانور بھی پانی پیتے ہیں تو اگر پانی میں زہر ملایا گیا ہوتا تو اس سے جانور بھی ہلاک ہو جاتے لیکن ایسی کوئی اطلاعات ہمارے پاس موجود نہیں ہیں۔‘
ڈیم پر سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی صبح آٹھ بجے سے شام چار بجے تک ہوتی ہے جبکہ رات کو ڈیم پر سکیورٹی کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔
اس ڈیم کو دیکھنے کے لیے مقامی آبادی کے سیاح بھی جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر جعلی تصاویر
اس واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی تصاویر گردش کر رہی ہیں، جن میں مچھلیاں مردہ حالت میں نظر آرہی ہیں تاہم عبدالقادر کے مطابق جتنی بھی تصاویر میں بڑی مچھلیاں ہیں وہ سب جعلی تصاویر ہیں کیونکہ اس ڈیم میں بڑے سائز کی مچھلیاں موجود ہی نہیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا صارفین نے انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کرکے یہ تصاویر پوسٹ کردی ہیں، جسے مہمند ڈیم کے ساتھ منسوب کرنا بالکل غلط ہے۔