خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے اور میوزکالوجی میں ڈگری حاصل کرنے والے صوبے کے واحد نوجوان علی مراد خان قبائلی نوجوانوں کو موسیقی اور آرٹس کے ذریعے صدمے سے بھری زندگی سے باہر نکلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
نیشنل کالج آف آرٹس لاہور سے میوزکالوجی کی ڈگری حاصل کرنے والے علی مراد خان کہتے ہیں کہ موسیقی کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ وہ کہتے ہیں پاکستان کو آزاد ہوئے 70 سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے اور یہاں بڑے بڑے استاد بھی ہیں تاہم اب بھی موسیقی کا اپنا سٹائل نہیں بن پایا ہے بلکہ ہندوستانی سٹائل کو ہی جاری رکھا جا رہا ہے۔
قبائلی اضلاع میں فن و موسیقی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گذشتہ 40 سالوں میں قبائلی معاشرے میں کافی تبدیلی آچکی ہے جبکہ تعلیم اور شعور بھی کافی حدتک آگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ قبائلی معاشرہ ابھی تک تنگ نظر ہے لیکن نئی نسل میں کافی شعور ہے اور موسیقی اور آرت جیسی سرگرمیاں پسند کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’میں نے یہ سوچ سمجھ کر ڈگری حاصل کی اور اس کے ساتھ مجھے پتہ چلا کہ آرٹ کی بہت بڑی دنیا ہے اور ایک بہت رنگین دنیا ہے۔ ہم اس میں آگے چل کر اس خطے کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ آرٹ اور ثقافت کو فروغ دینے کے لیے تنظیمیں بنا سکتے ہیں اور تھیٹر کے ذریعت اپنی ثقافت کو اجاگر کر سکتے ہیں۔‘
علی مراد خان پورے صوبے میں میوزکالوجی میں ڈگری رکھنے والے واحد نوجوان ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پختون نوجوان کیوں اس شعبے کی طرف راعب نہیں ہوتے تو ان کا کہنا تھا یہاں یہ پیشہ ور موسیقار موجود ہیں جنہیں موسیقی کی سمجھ بوجھ ہے لیکن اس میں اعلیٰ تعلیم اور ریسرچر لیول پر کوئی نہیں ہے۔
ان کا کہبا تھا: ’میں اسے ہم پختونوں کی بدقسمتی سمجھتا ہوں کیونکہ دنیا بہت آگے تک گئی ہوئی ہے لیکن ہم اب بھی اس لیول پر کھڑے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول خیبرپختونخوا کے نوجوان میوزکالوجی ڈگری کی طرف اس وجہ سے بھی نہیں آرہے کہ صوبے کی کسی بھی یونیورسٹی یا کالج میں جبکہ آرٹس کونسل میں بھی اس کو فروغ نہیں دیا جا رہا۔ ’ جب تک نوجوانوں کو پلیٹ فارم مہیا نہیں کیا جاتا وہ اس طرف نہیں آئیں گے کیونکہ ان کو اس میں اپنا مستقبل دیکھائی نہیں دیتا۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ نوجوانوں کو جو یہ شوق رکھتے ہیں کو یہ پیغام دینا چاہیں گے کہ وہ اسلام آباد، کراچی یا لاہور میں جا کر پڑھیں کیونکہ وہاں پر آرٹس کے کالجز اور یونیورسٹیاں ہیں۔ اس کے بعد وہ خیبر پختونخوا میں واپس آکر پڑھا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’اس کے ساتھ میں خیبرپختونخوا کی حکومت سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ ان نوجوانوں کے لیے بھی پلیٹ فارم مہیا کریں جو ملک کے دوسرے شہروں میں آرٹس اور میوزک کی ڈگریاں لے کر یہاں کے نوجوانوں کو پڑھا سکیں۔‘
علی مراد خان نے کہا کہ انہوں نے میوزکالوجی میں ایم ایس کے لیے برطانیہ کی شیورنگ سکالرشپ کے لیے بھی اپلائی کیا ہوا ہے اور اس میں بھی میں واحد پاکستانی ہیں جنہوں نے میوزکالوجی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اپلائی کیا ہے۔
جن ان سے پوچھا گیا کہ موسیقی کی ترقی کے لیے وہ قبائلی علاقے میں کیا کرنا چاہتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے کالج آف آرٹس کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے۔ ’میں نے ان کو اس بات پر راضی کردیا ہے کہ اگر ہم میوزکالوجی پڑھانے کا آغاز کر دیں تو دنیا بھرکے لوگوں کی توجہ حاصل کرسکتے ہیں۔ یورپ کی بڑی تنظیمیں ہیں، آرٹس کے بڑے پلیٹ فارمز اور کلچرل کمپلیکسز ہیں، ہم ان کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ اس علاقے میں لوگ جنگوں سے کافی متاثر ہوئےہیں اور دنیا میں لوگوں کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ان لوگوں کی مدد کرسکٰن اور ان لوگوں کو اس صدمے سے نکال سکیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے خیبر پختونخوا کے آرت کالجز میں موسیقی کی تعلیم کا میعار ویسا نہیں جیسا ملک کے دوسرے تعلیمی اداروں میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عہدوں پر فائض افسران کو اس جانب دھیان دینا چاہیے اور اس علاقے میں موسیقی اور آرٹس کو فروغ دینے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔