لاہور: خاتون سے ’ریپ‘ کی کوشش کرنے والا مقابلے میں ہلاک

ڈولفن سکواڈ کے مطابق لیاقت آباد کی رہائشی خاتون نے 15 پر کال کی کہ چار ملزمان انہیں ریپ کا نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم اہلکاروں کے پہنچنے پر ملزمان نے فائرنگ کردی اور جوابی فائرنگ کے نتیجے میں ایک ملزم ہلاک جبکہ تین فرار ہوگئے۔

لاہور کے علاقے لیاقت آباد میں ڈولفن سکواڈ نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے منگل کی صبح ایک خاتون کو چار افراد کی جانب سے مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنانے کی کوشش ناکام بنادی، تاہم ڈولفن سکواڈ اور ملزمان کے درمیان فائرنگ کے تبادلے سے جہانگیر نامی ایک ملزم ہلاک جبکہ باقی تین فرار ہو گئے۔

لیاقت آباد کے علاقے اکبر شہید روڈ کی رہائشی خاتون نے میڈیا کو جاری کیے گئے اپنے بیان میں کہا: 'میں گھر میں داخل ہو رہی تھی جب شراب کے نشے میں دھت چار لڑکے زبردستی میرے ساتھ گھر میں داخل ہوئے، مجھے پکڑ لیا اور مجھ سے ریپ کی کوشش کی۔ میں وہاں سے بھاگ کر گلی کے باہر کھڑے ایک رکشے میں بیٹھ گئی۔ اس دوران ملزم جہانگیر بھی رکشہ میں آ کر بیٹھ گیا اور رکشہ ڈرائیور کو بھی مارنے لگا۔ وہ بار بار ہمیں پستول دکھا رہا تھا اور آدھے گھنٹے تک ملزم رکشے میں میری عزت لوٹنے کی کوشش کرتا رہا۔'

اس واقعے کی ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ملزم جہانگیر زخمی حالت میں لنگڑاتا ہوا ایک گلی میں داخل ہوا ہے جبکہ ڈولفن سکواڈ کے تین اہلکار اس کے پیچھے ہیں۔ جہانگیر زمین پر گرتا ہے اور ہاتھ کھڑے کرتا ہے جبکہ ڈولفن سکواڈ کے اہلکار اس پر ایک اور گولی چلاتے ہیں جس سے وہ موقع پر ہلاک ہو جاتا ہے۔

اس حوالے سے ڈولفن سکواڈ کے ترجمان یاسین بٹ کا کہنا تھا کہ 'سی سی ٹی وی فوٹیج پوری نہیں ہے اور اس کا صرف کچھ حصہ ہی حاصل ہو سکا ہے، تاہم جو فوٹیج ملی ہے اسے غور سے دیکھیں توجہانگیر کے ہاتھ میں پستول ہے اور زمین پر گرکر بھی اس نے ڈولفن سکواڈ کے اہلکاروں پر پستول تانی جس پر اہلکاروں نے اسے ہلاک کیا۔'

انہوں نے بتایا کہ جب خاتون رکشے میں بیٹھنے کے لیے بھاگیں تو انہوں نے پولیس کو کال کی، جس کے نتیجے میں علاقے کے قریب ہی گشت کرنے والے ڈولفن سکواڈ کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور خاتون کو بچایا۔

یاسین بٹ کے مطابق اہلکاروں کو دیکھ کر ملزمان نے گولیاں چلائیں، جواباً اہلکاروں اور ملزمان کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ تین ملزمان موقع سے فرار ہو گئے جبکہ جہانگیر پولیس کی گولی لگنے سے زخمی ہوا اور اس نے بھاگنے کی کوشش کی۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'ان چاروں ملزمان کے پاس پستول تھے جب کہ جہانگیرریکارڈ یافتہ ملزم  ہے جس کے خلاف ہوائی فائرنگ وشراب نوشی کے متعدد مقدمات درج ہیں۔'

چند ماہ قبل اس سے ملتا جلتا واقعہ لاہور کے وحدت روڈ پر بھی پیش آیا تھا جہاں ڈولفن سکواڈ اہلکار دن کی روشنی میں ڈاکوؤں کا تعاقب کر رہے تھے۔ یہاں بھی اہلکاروں اور ڈاکوؤں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور ایک گولی موٹر سائیکل پر اپنے والد کے ہمراہ جانے والی ایک نوجوان لڑکی کو لگی، جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہلاک ہو گئی تھی۔ ڈولفن پولیس نے موقف اختیار کیا تھا کہ لڑکی ڈاکوؤں کی گولی لگنے سے ہلاک ہوئی تھی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب لیاقت آباد مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ملزم جہانگیر کے اہل خانہ پیکو روڈ پر سراپا احتجاج ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کو ناحق مارا گیا۔

جہانگیر کے والد شوکت نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: 'ہمارے گھر میں دعوت تھی اور جہانگیر کھانے پینے کا سامان اور سبزیاں لینے کے لیے منڈی جا رہا تھا۔ وہ گھر سے نکلا تو باہر ڈولفن سکواڈ کے اہلکار کھڑے تھے۔ ان سے جہانگیر کی کچھ بات ہوئی اور جھگڑا شروع ہو گیا جس کے بعد ڈولفن اہلکاروں نے جہانگیر کو گولی مار دی۔ ان کا کہنا تھا کہ جہانگیر کے خلاف ایک ایف آئی درج ہے اور وہ بھی ہمارا ذاتی جائیداد کا تنازع تھا، جس میں فائرنگ ہوئی اور اس مقدمے میں جہانگیر کو نامزد کیا گیا۔'

واقعے کی ایف آئی آر متاثرہ خاتون کے ایک رشتے دارکی مدعیت میں  تھانہ لیاقت آباد میں ہلاک ہونے والے ملزم جہانگیر اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف درج کی گئی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے تھانے کے ایس ایچ او عاصم جہانگیر سے رابطہ کیا، تاہم انہوں نے کہا کہ 'جو بیان ایف آئی آر میں درج ہے وہی ہمارا موقف ہے۔'

ایف آئی آر کے مطابق: 'ڈولفن سکواڈ کو کال صبح پانج بجکر پانچ منٹ پر موصول ہوئی، جس میں کہا گیا کہ چار مسلح افراد ایک رکشے کو روک کر اس میں موجود خاتون کو ہراساں اور ریپ کی کوشش کر رہے ہیں اور چاروں افراد شراب کے نشے میں دھت ہیں۔ ڈولفن ٹیم جب موقع پر پہنچی تو ملزمان رکشے کو گھیرے کھڑے تھے۔ پولیس کو دیکھتے ہی ملزمان نے اہلکاروں پر سیدھی گولیاں چلائیں۔ تین ملزمان گولیاں چلاتے ہو ئے وہاں سے فرار ہو گئے۔ پولیس نے بھی اپنی جان بچانے کے لیے جواباً گولیاں چلائیں، جس کے نتیجے میں جہانگیر شوکت نامی ملزم ہلاک ہو گیا۔'

تاہم ایف آئی آر میں کہیں یہ درج نہیں کہ 15 پر کال کس نے کی۔

ایس پی ماڈل ٹاؤن دوست محمد نے بھی یہی بیان میڈیا کے لیے جاری کیا، جو ایف آئی آر میں درج ہے۔

دوسری جانب رکشہ ڈرائیور عادل کے بیان کے مطابق: 'انہوں نے خاتون کو بطور سواری نشتر کالونی سے بٹھایا اور انہیں لیاقت آباد لے کر آئے جہاں چار لڑکے رکشے میں آ کر بیٹھ گئے، ان کے ہاتھ میں پستول تھے، وہ خاتون کو رکشے سے نیچے اتارنے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ خاتون نے انکار کردیا تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹے تک وہ ملزمان انہیں زدوکوب اور ہراساں کرتے رہے جس کے بعد ڈولفن سکواڈ وہاں پہنچا اور ملزمان نے انہیں دیکھتے ہی ان پر گولیاں چلانی شروع کر دیں۔'

سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے لیاقت آباد واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ایس ایس پی ڈسپلن سید امین بخاری سے  72 گھنٹوں میں اس واقعے کی  انکوائری رپورٹ طلب کر لی ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے بھی لیاقت آباد میں مبینہ پولیس مقابلے کا نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس سے رپورٹ طلب کر لی اور آئی جی پنجاب انعام غنی نے لیاقت آباد واقعے کی رپورٹ سی سی پی اور لاہور سے طلب کرکے اسی انکوائری رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داران کے خلاف محکمانہ و قانونی کارروائی کا حکم دیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان