غیر بلوچ دوست جن کی اکثریت لاہور سے ہے جب بھی ان سے بلوچستان کے متعلق بات یا بحث ہوتی ہے تو حاصل بحث یہ نکلتا ہے اور ان کی حتمی رائے یہ ہوتی ہے کہ بلوچ ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ ایک معمولی سی بات ان کو پچھلے سات دہائیوں سے سمجھ نہیں آ رہی ہے یا تو سب کچھ جان کر انجان بنے ہوئے ہیں؟
اگر واقعی بلوچستان کا مسئلہ سمجھ نہیں رہے، تو سادہ الفاظ میں بتا دوں کہ بلوچستان کے مسائل یہ ہیں کہ بلوچستان کے وسائل لوٹے جا رہے ہیں، اور مسائل کا حل یہ ہےکہ مسائل اور وسائل دونوں بلوچ کے حوالے کر دیں۔ بلوچ جانے، بلوچ کے مسائل اور وسائل۔
کہا جاتا ہے کہ بلوچ ترقی کے خلاف ہیں۔ بھلا کون ہے جو ترقی یافتہ پر تعیش آزاد سماج میں زندگی بسر کرنا نہیں چاہتا؟ ترقی کے نام پر بلوچ کا استحصال کرتے آ رہے ہیں بلوچ جب استحصالی نظام اور پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو ترقی مخالف وغیرہ کہہ کر ان کے تشویش اور خدشات کو متنازع بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
مکران سے تعلق رکھنے والے بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنے ڈھائی سالہ دور اقتدار میں بلوچستان میں کالج اور یونیورسٹیاں بنائیں، کسی ایک بلوچ نے بھی مخالفت نہیں کی۔ اگر موجودہ حکومت صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ میں اورنج لاین یا میٹرو بس پروجیکٹ کی منظوری دے دے، میرا ذمہ جو کسی نے مخالفت کی۔
بلوچستان کی سنگل سڑکیں سالانہ کئی سو افراد کی زندگیاں ختم کر دیتی ہیں۔ بلوچستان کے لوگ دہری شاہراہیں بنانے کا کب سے مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔ یہاں موٹر وے چلا دیں، سب تالیاں بجائیں گے۔
گوادر کے نوجوانون نے حال ہی میں ٹوئٹر پر گوادر میں یونیورسٹی بنانے کی مہم چلائی تھی۔ گوادر میں یونیورسٹی بنائیں مکران کے طلبہ داد دیں گے۔ بلوچستان کے تمام اضلاع سے تعلق رکھنے والے افراد چھوٹے سے مرض کی علاج کے لیے کئی گھنٹوں کی مسافت طے کر کے کراچی جاتے ہیں۔ بلوچستان میں کوئی ایک دو ایسے ہسپتال بنا دیں جن سے چار غریب علاج کرا سکیں، کوئی مخالفت نہیں کرے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گوادر کے ماہی گیروں کے سامنے ان کی جدی پشتی ذرائع آمدن سمندر کے اردگرد باڑ لگا کر ان کو بزور طاقت یہ باور کرایا گیا کہ یہ ترقی ہے۔ عام مخلوق کی فلاح و بہبود اور حفاظت کی اتنی فکر ہے تو سی پیک سے منسلک اکنامک زون بلوچستان میں بنا لیں، بجلی پاور پلانٹ لگا دیں۔۔ ایک بوند صاف پانی کے لیے تڑپتے گوادر کے پیاسے عوام کے لیے واٹر فلٹریشن پلانٹ لگا دیں۔ گوادر کے لیے قانون سازی کرلیں۔ بلوچستان میں یونیورسٹی کالج، معیاری ہسپتال، لائبریری، ریسرچ اور سٹڈی سنٹرز بنا لیں، کوئی بھی ان ترقیاتی پروجیکٹس کو شک کی نگاہ میں نہیں دیکھے گا۔
سی پیک کے نام پر جو خواب اور سبز باغ بلوچوں کو دکھائے جا رہے ہیں، اس سے پہلے سوئی گیس، سینڈک اور ریکوڈیک کے حوالے سے بلوچ کی تقدیر بدلنے اور قسمت جاگ اٹھنے کی نوید سنائی جا چکی ہے۔ سوئی گیس دریافت ہوئے 67 سال گزر گئے لیکن سوئی شہر کے قریب ترین شہر اور گاؤں سوئی گیس کی سہولیات سے محروم ہیں۔ یہی سوئی گیس پنجاب، سندھ، کے پی کے کے کونے کونے تک پہنچا دی گئی۔
تاریخ کو چھوڑ دیں لیکن بلوچوں کی نئی نسل جب سی پیک کے نام پر لاہور میں میٹرو، اکنامک زون وغیرہ بنتے دیکھ رہے ہیں اور ترقی کے نام پر گوادر میں باڑ لگا کر گوادر واسیوں کی شخصی آزادی کو محدود کیا جا رہا ہے تو ان کے ذہن میں یہ سوال تو ابھرے گا کہ یہ کیسی ترقی ہے جو مجھے کچھ دینے اور خوشخال بنانے کی بجائے مجھے محصور اور محدود کر رہا ہے؟
اگر یہ باڑ لگانا ترقی کی ابتدا ہے تو اسلام آباد، لاہور ہم سے بہت پہلے ترقی کر چکے ہیں تو وہاں یہ باڑ کیوں نہیں ہے؟
جہاں تک سکیورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر یہ سب کیا جا رہا ہے تو گوادر سے زیادہ دہشت گرد حملے اسلام آباد اور لاہور میں ہوئے ہیں جن کی ذمہ داری کالعدم دہشت گرد تنظیموں نے قبول کیے ہیں۔
ہم نے آج تک ان شہروں میں کسی سرکاری عمارت، علاقے یا ہوٹل کے اردگرد باڑ لگتے نہیں دیکھی۔
باڑ لگانے کا عمل بلوچ قوم پرستوں اور خاص کر ایک عام بلوچ کے خدشات اور تشویش میں اضافہ کر رہا ہے۔ معاشی اور اقتصادی ترقی دینے کے لیے ماحول کو سازگار پرامن بنانا بہت ضروری ہے۔ باڑ لگانے سے ماحول سازگار نہیں بلکہ ایک عام بلوچ کے ذہن میں کئی سوالات اور خدشات کو جنم دے رہا ہے۔
معاشی اور اقتصادی ترقی کرنے کے لیے لازمی ہے کہ علاقہ مکینوں کو معاشی اور اقتصادی سرگرمیوں کی آزادی دینے کے ساتھ ان کو اعتماد میں لیا جائے۔
باڑ سے فاصلہ بڑھ سکتے ہیں کاش ہمارے پالیسی سازوں کو کوئی یہ سمجھا دے کہ یہ وقت فاصلہ بڑھانے کی نہیں بلکہ کم کرنے کی ضرورت ہے۔