یوں تو پرندے اپنی جگہ کی نشاندہی کرنے اور اپنے دفاع کے لیے چہکتے ہیں لیکن ایک نئی تحقیق میں تصدیق ہوئی ہے کہ پرندوں کی یہ چہچہاہٹ انسانی کانوں کے لیے ایک ٹانک کی طرح کام کرتی ہے جسے سن کر انسان کی طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے، حتیٰ کہ ان کی آوازوں کی ریکارڈنگ بھی ایسا ہی اثر کرتی ہے۔
اگرچہ تحقیق کے بڑھتے ہوئے حجم سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ فطرت کے نزدیک گزارا جانے والا وقت انسانی صحت کو فائدہ دیتا ہے لیکن کچھ مطالعات اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ آخر ایسا ہوتا کیوں ہے۔
’کیلیفورنیا پولی ٹیکنک سٹیٹ یونیورسٹی‘ کی ٹیم نے اپنی تحقیق میں یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پرندوں کے گانوں کی آواز میں ایسا کیا ہے کہ انسان اپنی آبادیوں سے دور دراز علاقوں میں رہنے کے تجربے اور پرندوں کی آوازوں سے خود کی طبعیت میں بہتری کو محسوس کرتے ہیں۔
مطالعے کی سربراہی کرنے والی بیالوجی گریجویٹ طالب علم ڈینیئلی فیریرو نے اس بارے میں کہا: اس بات کے بہت سارے شواہد موجود ہیں کہ فطرت میں وقت گزارنا انسانی طبعیت پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ تاہم کچھ مطالعات نے فطرت کی جانب سے انسانوں کو نوازے جانے فوائد کی چند مخصوص خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے۔
’اگرچہ بڑے کنوس پر فطرت کی بحالی کی خصوصیات کو جانچنے کے لیے متعدد انسانی حواس کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارا مطالعہ اس شعبے میں محض ایک حس (آواز) پر کام کرنے پہلا تجرباتی عمل ہے اور اس کا مقصد فطرت میں انسانی تجربات کی اہمیت کا مظاہرہ کرنا ہے۔‘
فیریرو اور ان کی ٹیم نے نے کولوراڈو کے ’بولڈر اوپن سپیس اینڈ ماؤنٹین پارکس‘ میں ٹریلز کے دو حصوں کے دوران چھپائے گئے سپیکرز پر مختلف اقسام کے پرندوں کی ریکارڈ شدہ آوازیں چلائیں۔
تحقیقاتی ٹیم نے ہفتہ وار بلاکس میں ایک ٹریل سیکشن کے دوران پرندوں کے گانوں کو چلایا اور دوسرے میں اسے بند کر دیا۔
بعد میں ان حصوں سے پیدل سفر کر کے گزرنے والے افراد سے انٹرویو لیے گئے۔
اگرچہ پرندوں کی یہ چہچہاہٹ حقیقت کی بجائے ریکارڈڈ آوازیں تھیں لیکن اس کے باوجود یہ اضافی آوازیں سننے والے افراد نے ان لوگوں سے نسبت اپنی طبعیت میں زیادہ بہتری کے بارے میں بتایا جنہوں نے یہ آوازیں نہیں سنی تھیں۔
سروے کے نتائج سے پتہ چلا کہ دونوں آوازوں، خود کی اور لوگوں کی حیاتیاتی تنوع کے بارے میں رائے سے بہتری کے جذبات بڑھ سکتے ہیں۔
ٹریل کے پہلے حصے پر ہائکنگ کرنے والے جن افراد نے زیادہ پرندوں کی آوازوں کو سنا انہوں نے خود کو بہتر محسوس کیا لیکن انہوں نے اس بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ ان کے خیال میں ٹریل کے اس حصے میں زیادہ پرندے رہتے ہیں یا نہیں۔ لیکن دوسرے حصے پر زیادہ پرندوں کی آواز سننے والے ہائیکرز کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ٹریل کے اس حصے میں زیادہ پرندے رہتے ہیں یوں اور محققین نے پایا ہے کہ زیادہ انواع کے بارے میں سوچنا ہی بہتر محسوس کرنے کی اصل وجہ ہے۔
اس تحقیق کا جائزہ لینے والے کیلیفورنیا پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں حیاتیات کے پروفیسر کلنٹن فرانسس نے کہا: ’ہم ایسے بصری جانور ہیں جو آوازوں سے ان کی جہت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’میں اب بھی یہ جان کر حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہوں کہ کہ کیسے ان آوازوں کو صرف سات سے دس منٹ سننے سے لوگ خود میں بہتری محسوس کرتے ہیں۔ یہ واقعی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سماعت ہمارے لیے اور شاید دوسرے جانوروں کے لیے بھی کتنی اہمیت کی حامل ہے۔‘
سائنس دانوں نے کہا ہے کہ یہ نتائج محفوظ علاقوں اور اس کے باہر بھی قدرتی ساؤنڈ سکیپس کو بہتر بنانے کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انسانی آواز کی آلودگی کو کم کر کے ہم پرندوں کے گیتوں سمیت قدرتی آوازیں سننے میں آسانی پیدا کر سکتے ہیں جس سے ہم زیادہ خوشی محسوس کریں گے۔
جیسا کہ مس فیریرو کا کہنا تھا: ’ہمارے نتائج پارکس کی انتظامیہ کو انسانی شور کی آلودگی کو کم کرنے کی ضرورت کی نشاندہی کرتے ہیں جس سے نہ صرف یہاں آنے والوں کے تجربات کو بہتر بنانے کا ایک مؤثر طریقہ ہے بلکہ اس سے جنگلی حیات کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔‘
یہ تحقیقن ’رائل سوسائٹی بی‘ میں شائع ہوئی ہے۔
© The Independent