کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاک کے میدانوں میں چند لوگ انگور کے دانوں کو الگ کرنے کے بعد اسے بھٹی میں ڈال رہے ہیں جنہیں بعد میں میدانوں میں خشک کرنے کے لیے پھیلا دیا جاتا ہے۔
یہ انگور خشک ہوکر کشمش بن جاتا ہے جسے بطور خشک میوہ دکانوں میں فروخت کے لیے رکھا جاتا ہے۔
کوئٹہ میں انگور کے دانوں کو خشک کرنے کے ماہر محمد اسحاق کا تعلق افغانستان کے علاقے قندھار سے ہے اور وہ گذشتہ کئی سالوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔
محمد اسحاق کے مطابق انگور کو کشمش بنانے جسے مقامی زبان میں ’آب جوش‘کہتے ہیں کا کام تقریباً سو سالوں سے چلا آرہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ہنر افغانستان سے یہاں منتقل ہوا ہے۔ انگور سے کشمش بنانے کا کام بنیادی طور پر افغانستان کے علاقے قندھار میں جاتا ہے۔
’اس میں دو طریقے سے مزدور کام کرتے ہیں پہلے انگور کے باغ کا ٹھیکہ لیا جاتا ہے۔ انگور جب پک جاتا ہے تو اسے اتار کر یہاں بھٹی پہنچا دیا جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد اسحاق بتاتے ہیں کہ یہاں بھٹی میں ہمارے مزدور انگور کی چھانٹی کرکے اسے ایک جگہ جمع کرتے ہیں۔ پھر اس کو ایک بھٹی میں ڈالا جاتا ہے۔
بھٹی میں پانی میں کاسٹک سوڈا ملایا جاتا ہے جس سے اس کا چھلکا نرم ہو جاتا ہے۔
اسحاق کے مطابق انگور کو بھٹی سے نکالنے کے بعد ایک کھلے میدان میں دانے دانے کرکے پھیلایاجاتا ہے، جس کو دس بارہ دن تک ایسے ہی رکھا جاتا ہے تاکہ یہ خشک ہو جائے۔
’اگر موسم بہتر ہو تو ہمارے لیے خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ خراب موسم بارش،طوفان اور تیز ہوا کے باعث یہ خراب ہوجاتے ہیں۔‘
گذشتہ سال بارش اور تیز ہواؤں کے باعث محمد اسحاق کو 70 سے 80 لاکھ کا نقصان ہوا تھا۔
محمد اسحاق کہتے ہیں کہ انگور سے کشمش بنانے کا کام 15 اکتوبر سے شروع ہوکر دسمبر کے مہینے میں ختم ہو جاتا ہے۔ اس کام یعنی بھٹی میں تقریباً 50 کے قریب لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔
اس کام میں اب بلوچستان کے مقامی لوگ بھی مہارت حاصل کررہے ہیں۔
محمد اسحاق نے بتایا کہ خشک ہونے والے انگور کو ہم کلو اور من کے حساب سے مقامی خشک میوہ جات کے بیوپاریوں کو فروخت کردیتے ہیں، جو اس کو دوبارہ چھانٹی کرکے پلاسٹک کے بیگوں میں پیک کرکے دوسرے شہروں میں بھیج دیتے ہیں۔
ان کے مطابق کشمش ہر انگور سےنہیں بنایا جاتا بلکہ ایک خاص قسم سے بنایا جاتا ہے۔