پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے گزشتہ روز ٹیکسلا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ یورپین یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی(ای اے سی اے) کی جانب سے پاکستانی ایئر لائنز پر یورپی ممالک جانے کے لیے عائد پابندی کے حوالے سے خدشات بہت حد تک دور کر دیے گئے ہیں اور جلد یہ پابندی اٹھائی جائے گی۔
غلام سرور خان نے مزید بتایا تھا کہ کمرشل پائلٹس کو لائسنس جاری کرنے کے معاملے پر ای اے سی ای نے جو خدشات ظاہر کیے تھے ان کو بہت حد تک دور کردیا گیا ہے اور جلد پاکستان اور یورپی ممالک کے درمیان پروازوں کا سلسلہ دوبارہ بحال کردیا جائے گا۔
ای اے سی اے نے کیا پابندی لگائی ہے؟
یورپین یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی یورپی ممالک میں ہوابازی کا ایک مشترکہ نگران ادارہ ہے جو سیفٹی کے معاملات کو دیکھتا ہے۔
یہ ایجنسی یورپی یونین ممالک کے علاوہ دیگر ممالک کی ایئر لائنز کو ایک اجازت نامہ دیتی ہے جسے ’تھرڈ کنٹری آتھرائزیشن‘ یعنی ٹی سی او کہا جاتا ہے۔
اس کے بعد ان ائیر لائنز کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ یورپین ممالک کے لیے پروازیں چلا سکیں۔
مذکورہ ایجنسی نے ہی جولائی میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو جاری کردہ اجازت نامہ منسوخ کیا تھا اور پاکستان سے پی آئی اے کی یورپی ممالک میں پروازوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔
یہ پابندی وفاقی وزیر غلام سرور خان کے پارلیمنٹ میں ایک بیان کے نتیجے میں لگائی گئی تھی۔
ای اے سی اے نے پی آئی اے کو مئی 2016 میں ٹی سی او یا اجازت نامہ جاری کیا تھا۔
اجازت نامے کی منسوخی کے حوالے سے ایجنسی کی جانب سے پی آئی اے کو جون 2020 میں لکھے گئے خط کے مندرجات کے مطابق پی آئی اے کو بارہا حفاظتی اقدامات اور متعلقہ قوانین پر عمل کرنے کا بتایا گیا تاہم اس پر درست طریقے سے عمل نہ کیا جا سکا۔
خط میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ پی آئی اے نے یورپین یونین ایوی ایشن ایجنسی کو جون 2020 میں درخواست کی تھی کہ ان کو تین چار مہینے کا مزید وقت درکار ہے تاکہ سیفٹی کے حوالے سے سافٹ وئیر پر مزید کام کیا جا سکے تاہم ایجنسی کی طرف سے مزید وقت نہیں دیا گیا کیونکہ پہلے سے نو مہینے کی مہلت پی آئی اے کو دی گئی تھی تاکہ وہ سیفٹی کے حوالے سے معاملات کو درست کر سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وفاقی وزیر برائے ہوابازی غلام سرور کی جانب سے 24 جون کو پارلیمنٹ میں پائلٹس کے لائسنس پر خدشات کے حوالے سے کی گئی تقریرکی طرف اشارہ کرتے ہوئے خط میں لکھا گیا تھا کہ متعلقہ وزیر نے مان لیا ہے کہ پائلٹس کو لائسنس غیر مناسب طریقے سے جاری کیے گئے ہیں جس پر یورپین یونین ایوی ایشن ایجنسی کو خدشہ ہے کہ پاکستان پروازوں کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین پر عمل نہیں کررہا ہے۔
طاہر عمران میاں پاکستانی صحافی ہیں اور ایوی ایشن کے معاملات پر نظر رکھتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو وفاقی وزیر برائے ہوابازی غلام سرور کے بیان کے بارے میں بتایا کہ اس معاملے میں ابھی تک صرف اتنی پیش رفت ہوئی ہے کہ پی آئی اے نے یورپین یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی کا مطلوبہ سیفٹی منیجمنٹ سسٹم یعنی ایس ایم ایس تیار کر لیا ہے جس پر ایجنسی نے تسلی کا اظہار کیا ہے۔
طاہر عمران کا کہنا تھا کہ ’پاکستان نے یہ سافٹ وئیر یورپین یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی کو بھیج دیا ہے اور ایجنسی نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا ہےمگر یورپین یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کو بتایا ہے کہ وہ پاکستان آ کر اس سافٹ وئیر اور ایئرلائن کا آڈٹ نہیں کر سکتے جو کہ اس عمل کا اگلا لازمی مرحلہ ہے، کیونکہ ابھی تک پاکستانی پائلٹس کے لائسنس کا مسئلہ حل نہیں ہوا اور اس کے حل ہونے تک اس آڈٹ کا کوئی حتمی نتیجہ مرتب نہیں کیا جا سکے گا۔‘
صحافی طاہر عمران سے جب پوچھا گیا کہ یورپین ایوی ایشن ایجنسی کے اجازت نامے کی اہمیت کیا ہے، تو انھوں نے بتایا کہ اس اجازت نامے یعنی ٹی سی او کے بغیر کسی بھی ملک کی پرواز یورپی ممالک نہیں جا سکتی کیونکہ اجازت نامہ جاری کرنے سے پہلے ایجنسی ایئرلائنز کے حفاظتی اقدامات اور سارے نظام کو جانچتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا ’پاکستان میں صرف پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے پاس یہ اجازت نامہ موجود تھا جو کہ جولائی میں منسوخ کیاگیا ہےاور اب پاکستان سے پی آئی اے کی کوئی بھی پرواز یورپ کے کسی بھی ملک کو نہیں جا سکتی ہے۔‘