سپریم کورٹ نے پیر کو سینیٹ الیکشن کے طریقہ کار سے متعلق ایک صدارتی ریفرنس کی ابتدائی سماعت کرتے ہوئے چاروں صوبائی حکومتوں، الیکشن کمیشن، سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام فریقن کے جوابات کا جائزہ لے گی۔
سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر آج چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ عدالت نے تمام فریقین سے تحریری سفارشات طلب کرتے ہوئے ریفرنس کی سماعت سے متعلق اخبارات میں بھی عوامی نوٹس شائع کرنے کا حکم دیا ہے۔
وفاقی حکومت نے صدارتی ریفرنس کے ذریعے عدالت سے رائے مانگی ہے کہ آیا سینیٹ الیکشن آئینی ترمیم کے بغیراوپن بیلٹ کے ذریعے ہو سکتا ہے یا نہیں؟ حکومتی ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں ’ہارس ٹریڈنگ اور ووٹوں کی خرید و فروخت سے بچنے‘ اور شفاف انتخابات کے لیے شو آف ہینڈ کے ذریعے الیکشن کروانا چاہتے ہیں۔
بعض قانونی ماہرین سینیٹ انتخابات میں شو آف ہینڈ کے ذریعے ووٹنگ کے طریقہ کار کو آئین پاکستان کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ پاکستان میں سینیٹ انتخابات مارچ میں متوقع ہیں۔
آج ریفرنس کی سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریفرنس میں سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے نہ کرنے کا قانونی سوال اٹھایا گیا ہے، سوال ہے کیا آرٹیکل 226 کا اطلاق صرف آئین کے تحت ہونے والے الیکشن پر ہوتا ہے؟
خیال رہے کہ آئین کا آرٹیکل 226 کے مطابق صرف وزیر اعظم اور وزرا اعلیٰ کا انتخاب شو آف ہینڈ کے ذریعے ہو سکتا ہے جبکہ باقی تمام انتخابات خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہی ہوں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ’آپ چاہتے ہیں عدالت آئین اور قانون کے تحت ہونے والے انتخابات میں فرق واضح کرے؟ کیا قومی اسمبلی کا انتخاب آئین کے تحت نہیں ہوتا؟‘ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عام انتخابات الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ہوئے ہیں آئین کے تحت نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ آئین میں سینیٹ اور اسمبلی انتخابات کا ذکر ہے، انتخابات کیسے ہونے ہیں یہ بات الیکشن ایکٹ میں درج ہو گی لیکن مقامی حکومتوں کے انتخابات کا آئین میں ذکر نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن ایکٹ بھی آئین کے تحت ہی بنا ہوگا، کیا کوئی قانون آئین سے بالاتر ہو سکتا ہے؟ سینیٹ کا الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کیوں پیدا نہیں کرتے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں، عدالت سے آئینی اور قانونی رائے مانگی گئی ہے۔ جسٹس اعجاز لاحسن نے اٹارنی جنرل کے ساتھ مکالمہ جاری رکھتے ہوئے پوچھا کہ کیا کسی مرحلے پر قومی اسمبلی کا الیکشن بھی اوپن بیلٹ کے ذریعے کرایا جاسکتا ہے؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی نکتہ اُٹھایا کہ عدالت اس معاملے میں کیوں مداخلت کرے؟ انہوں نے کہا کہ چارٹر آف ڈیموکریسی میں سیاسی جماعتوں کا اسی نکتے پر اتفاق ہوا تھا۔
چیف جسٹس نے ابتدائی سماعت کے دلائل سننے کے بعد کہا کہ وہ چاروں صوبائی حکومتوں اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر رہے ہیں، چاروں ایڈووکیٹ جنرلز اور الیکشن کمیشن کے جواب کا جائزہ لیں گے۔
پیر کو ہونے والی ابتدائی سماعت صرف 15 منٹ جاری رہی، جس دوران عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت اپنا موقف پیش کرنا چاہتی ہے تو تحریری طور پر گزارشات عدالت میں آئندہ سماعت پر پیش کرے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت پر ریفرنس کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دینے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو بھی نوٹس جاری کیے اور سماعت 11 جنوری تک ملتوی کر دی۔