پشاور کے رہائشی اختر علی کی بہن کلثوم بی بی بچپن میں بیماری کے دوران معذور ہو گئی تھیں۔ علاج معالجے کی استطاعت سے محروم کلثوم نے اپنی زندگی کے 20 سال چارپائی پر گزار دیے۔ ان کے خاندان کے پاس اس وقت سوائے ہسپتال لے جانے کے کوئی چارہ نہ رہا جب کلثوم کو مزید جسمانی مسائل نے جکڑ لیا۔
اختر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہسپتال جاتے وقت ان کے پاس صرف اتنی رقم تھی، جس سے وہ بمشکل ایک وقت کی دوا خرید سکتے تھے۔
اختر نے بتایا کہ انہوں نے صحت کارڈ کا سنا تو تھا لیکن وہ اس کے متعلق بہت کم معلومات رکھتے تھے۔ جیب میں کم پیسے اور بہن کی تشویش ناک حالت دیکھ کر اختر کا خاندان کلثوم کی جان بچانے کا حوصلہ ہار بیٹھا تھا۔ تاہم جب وہ پشاور کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال پہنچے تو وہاں انہیں صحت کارڈ کی سہولت حاصل کرنے کا مشورہ دیا گیا تاکہ کلثوم کا علاج مفت کیا جا سکے۔
خیبر پختونخوا حکومت نے صحت سہولت پروگرام کا دائرہ پھیلانے اور صوبے کی تمام آبادی کو اس سے مستفید کروانے کے لیے یکم جنوری کو مزید چھ اضلاع کے تمام خاندانوں کو صحت کارڈ استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
ان اضلاع میں پشاور، چارسدہ، مردان، نوشہرہ، صوابی اور ہری پور شامل ہیں۔ صوبائی حکومت کے مطابق اگلے مرحلے میں جنوبی اضلاع میں بھی یہ سہولت شروع کر دی جائے گی۔ اس طرح 31 جنوری کے اختتام تک صوبے کی سو فیصد آبادی کے لیے یہ پروگرام نافذالعمل ہو جائے گا۔
تاہم عوام کی اکثریت صحت کارڈ کے حوالے سے نہ تو زیادہ معلومات رکھتی ہے اور نہ ہی انہیں اس کو حاصل کرنے کا طریقہ کار معلوم ہے۔ دوسری جانب انڈپینڈنٹ اردو کے مشاہدے میں یہ بھی آیا کہ مریض کے تیمار دار صحت کارڈ حاصل کرنے کے لیے ہسپتال میں قائم 'صحت سہولت پروگرام' کے دفتر اور ڈاکٹر کے درمیان دستاویزی لوازمات پوری کرتے کرتے ہلکان ہو جاتے ہیں۔ تیمارداروں کے مطابق حکومت اس پروگرام کی عوام تک رسائی کو مزید سادہ اور آسان بنا سکتی ہے۔
پشاور کے سرکاری ہسپتال حیات آباد میڈیکل کمپلیکس (ایچ ایم سی) میں قائم دفتر 'صحت سہولت پروگرام' کے نمائندے کاشان کمال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صحت کارڈ ہسپتال میں ان مریضوں کو دیا جاتا ہے جن کے پاس شناختی کارڈ ہوں اور جو ہسپتال میں علاج کے لیے داخل ہو جائیں۔
'مریض کا شناختی کارڈ لے کر ہم کمپیوٹرائزڈ سسٹم میں پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ کہیں یہ جعلی شناختی کارڈ تو نہیں۔ اس کے بعد ایک ریفرل فارم مریض کو دے کر اسے ڈاکٹر سے بھروانے کا بتاتے ہیں۔ متعلقہ ڈاکٹر اس میں ضروری اندراج کرکے واپس فارم ہمارے پاس بھیج دیتے ہیں۔ فارم پر لکھی ان معلومات کا اندراج ہم اپنے پاس محفوظ کر لیتے ہیں اور مریض کو صحت کارڈ سے مستفید ہونے کا اجازت نامہ جاری کر دیتے ہیں۔'
کاشان نے مزید بتایا کہ بنیادی طور پر ریفرل کا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی ہسپتال میں داخلے سے قبل مریض پہلے اپنے ضلعی ہسپتال سے رجوع کرے گا، اگر اس بیماری کا علاج وہاں کے ہسپتال میں ممکن نہ ہو تو 'صحت سہولت پروگرام' کا نمائندہ انہیں اس رجسٹرڈ کردہ ہسپتال ریفر کر دے گا جہاں اس بیماری کا علاج موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایمرجنسی کی صورت میں اس ریفرل لیٹر کا مطالبہ نہیں کیا جاتا۔
دوسری جانب ایچ ایم سی ہسپتال کے ڈاکٹر سید صدام حسین نے بتایا کہ وہ او پی ڈی میں مریض کی بیماری کے حوالے سے تمام معلومات ایک فارم میں بھر دیتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ کن ادویات اور دیگر سامان کی ضرورت ہوگی۔
'اس کے بعد دوائیوں کا سارا انتظام ہسپتال کی ڈسپنسری سے ہی پورا ہوتا ہے۔ جو ادویات اور سامان ہسپتال میں موجود نہ ہو اس کا انتظام بھی خود ہسپتال والے کرواتے ہیں۔ مریض کو گھر بھجواتے وقت انہیں ایک ہفتے کی دوا مفت دی جاتی ہے ۔'
ڈاکٹر صدام کے مطابق دیگر مفت سہولیات میں ہسپتال جنرل وارڈ کا داخلہ، آپریشن تھیٹر، بےہوشی کے ڈاکٹر کی فیس، ڈاکٹر اور سرجن کے اخراجات، آئی سی یو، تشخیصی ٹیسٹ، زیر علاج تجویز کردہ ادویات، سی سی یو اور ڈسچارج کے وقت پانچ دن کی ادویات دینا شامل ہے۔
صحت کارڈ پر کن بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے؟
صحت سہولت پروگرام کے تحت ایک خاندان کے تمام افراد کے لیے 10 لاکھ روپے سالانہ مقرر کیے گئے ہیں، تاہم اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ گھر کے کسی ایک فرد پر یہ تمام رقم خرچ نہیں کی جاتی بلکہ اس میں خاندان کے ہر فرد کے لیے ایک حد مقرر کر دی گئی ہے۔
اس پروگرام کی دستیاب معلومات کے مطابق ترجیحی علاج میں بیماریوں کی فہرست یہ ہے۔ امراض قلب اور شریان، اتفاقیہ اور حادثاتی علاج، ثانوی سطح کی بیماریوں کی پیچیدگی کی صورت میں ریفرل، ذیابیطس کی پیچیدگیاں، گردے کی پیوندکاری، مصنوعی بازو یا ٹانگ، ہر قسم کا کینسر، گردے اور مثانے کی بیماریاں بشمول ڈائلیسس، چھاتی کے سرطان کی سکریننگ اور نیورو سرجری۔
صحت کارڈ میں کو ن سے ہسپتال رجسٹرڈ ہیں؟
اگر صرف خیبر پختونخوا کی بات کی جائے تو اس پروگرام میں سرکاری اور غیر سرکاری کُل 130ہسپتالوں میں یہ سہولت موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ضمن میں صرف پشاور کے بڑے سرکاری ہسپتالوں کے نام یہ ہیں۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال، حیات آباد میڈیکل کمپلیکس، نارتھ ویسٹ ہسپتال، خیبر ٹیچنگ ہسپتال، فوجی فاؤنڈیشن پشاور، نصیراللہ بابر میموریل ہسپتال، پاک میڈیکل سینٹر پشاور، ضیا میڈیکل کمپلیکس پشاور، انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی حیات آباد، کویت ٹیچنگ ہسپتال پشاور، الیاس جنرل ہسپتال پشاور۔ دیگر اضلاع کے حوالے سے 'پی ایم ہیلتھ پروگرام ڈاٹ جی او وی ڈاٹ پی کے' لکھ کر گوگل پر یہ فہرست باآسانی حاصل کی جاسکتی ہے۔
اس پروگرام کا آغاز پہلی مرتبہ 2015 میں ہوا تھا۔ اس دوران خیبر پختونخوا کی تین فیصد آبادی کو یہ سہولت فراہم کی گئی تھی۔ 2016 میں یہ پروگرام دوسرے مرحلے میں داخل ہوا اور 2017 میں 64 فی صد آبادی کو یہ سہولت مہیا کی گئی تھی۔
2020 میں حکومت پاکستان نے یہ سہولت بلا تفریق تمام شہریوں کو فراہم کرنے کا دعویٰ کیا، جس کے نتیجے میں اب تک تقریبا پونے 72 لاکھ خاندانوں کا اندراج ہو چکا ہے۔