سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے قطر کے ساتھ تمام تعلقات بحال کر لیے ہیں جس کے بعد خطے میں ساڑھے تین سال سے جاری تنازع ختم ہو گیا ہے۔
منگل کو ریاض نے اعلان کیا کہ خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے تاریخی سربراہ اجلاس کے بعد قطر کے ساتھ 2017 میں شروع ہونے والا تنازع ختم ہو گیا ہے۔
سعودی عرب کی سربراہی میں چار ملکی اتحاد، جس میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر بھی شامل تھے، نے جون 2017 میں قطر کے ساتھ ایران کے قریب ہونے اور شدت پسند گروہوں کی حمایت کرنے کے الزام میں تعلقات منقطع کر لیے تھے۔ قطر نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق منگل کو سعودی عرب کی جانب سے کہا گیا کہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر بھی قطر کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں شامل ہو رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سعودی عرب نے اعلان کیا تھا وہ قطر کے ساتھ فضائی، بحری اور زمینی سرحدیں کھول رہا ہے، جس کے بعد قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے اعلان کیا کہ وہ جی سی سی کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے سعودی عرب جائیں گے۔ منگل کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے قطری امیر کا استقبال کیا۔
العلا شہر میں ہونے والے تاریخی سمٹ کے بعد سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کا کہنا تھا: ’آج جو ہوا وہ تمام معاملات پر ایک نیا باب ہے اور مکمل سفارتی تعلقات کی جانب واپسی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
منگل کو چھ رکنی خلیج تعاون کونسل کے رہنماؤں نے دو دستاویزات پر دستخط کیے جن میں ایک اعلان العلا تھا جب کہ دوسرا اعلامیہ تھا۔ یہ عمومی دستاویزات ہیں لیکن سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ یہ معاہدے ’ہمارے خلیجی، عرب اور اسلامی اتحاد اور استحکام‘ پر مبنی ہیں۔
انہوں نے ایرانی حکومت کے تباہ کن جوہری اور بلاسٹک میزائیل پروگرام کے باعث خطے کو لاحق چیلینجز کا متحد ہو کر سامنا کرنے کا مطالبہ کیا۔
خلیج تعاون کونسل کے تین ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے قطر کا بائیکاٹ کر رکھا تھا جبکہ دیگر تین ممالک میں قطر کے علاوہ غیر جانبدار عمان اور کویت شامل ہیں۔
سعودی میڈیا کی جاری کردہ تصاویر کے مطابق امیر قطر شیخ تمیم کا ہوائی اڈے پر استقبال اور اجلاس میں شرکت کرنے کے بعد سعودی ولی عہد نے انہیں اپنی سپورٹس کار میں العلا کے تاریخی علاقے کا دورہ کروایا۔
امریکہ کی جانب سے ایران کو تنہا کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں قطر کے بائیکاٹ کو ختم کرنے اور اس تنازعے کے حل کرنے کی کوششوں میں صدر ٹرمپ کی صدارت کے آخری دنوں میں بھرپور اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔
معاہدے پر دستخط کے موقع پر امریکی صدر کے داماد اور سینئیر مشیر جیرڈ کشنر بھی موجود تھے۔
رائل یونائیٹڈ سروس انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار ٹوبیاس بروک کا کہنا ہے: ’ٹرمپ انتظامیہ اس کا ایک اور کامیابی کے طور پر دعوے کرے گی۔‘