امریکی وزیرخارجہ مائیک کا کہنا ہے کہ عسکری تنظیم القاعدہ نے ایران میں اپنا نیا اڈہ قائم کر لیا ہے۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق مائیک پومپیو نے نیشنل پریس کلب واشنگٹن میں پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ وہ پہلی مرتبہ علی الاعلان کہتے ہیں کہ القاعدہ رہنما ابو محمدالمصری کو گذشتہ سال سات اگست کو ہلاک کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ المصری کی ایران میں موجودگی کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ القاعدہ نے نئے گھر میں اڈہ قائم کر لیا ہے اور یہ جگہ ایران ہے۔'
یاد رہے کہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے گزشتہ نومبر میں رپورٹ شائع کی تھی کہ القاعدہ رہنما ابو محمدالمصری جن پر الزام ہے انہوں نے 1998 میں افریقہ میں امریکی سفارت خانوں پر بم حملوں میں مدد کی، انہیں ایران میں اسرائیلی ایجنٹوں نے گولی مار کر ہلاک کیا۔
ایران نے اخباری رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی سرزمین پر القاعدہ کا کوئی'دہشت گرد'موجود نہیں ہے۔
صدر ٹرمپ کی دور صدارت میں ایران ان کی انتظامیہ کا مسلسل ہدف رہا ہے جبکہ حالیہ ہفتوں میں پومپیو نے ایران پر مزید دباؤ ڈالنے اور سخت پابندیوں سمیت کئی اقدامات اٹھائے ہیں۔
نو منتخب صدر جو بائیڈن کے مشیروں کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ یہ کوششیں اس لیے کر رہی ہے تاکہ نئی انتظامیہ کو ایران سے دوبارہ تعلقات بحال کرنے اور جوہری معاہدے میں دوبارہ شمولیت کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔
مزید پابندیاں
پومپیو ماضی میں بھی ایران پر القاعدہ سے تعلق کا الزام عائد کر چکے ہیں لیکن انہوں نے اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دیا تھا۔ اکتوبر 2017 میں اس وقت کے سی آئی اے ڈائریکٹر پومپیو نے کہا تھا کہ ’ایسا کئی بار ہو چکا ہے کہ ایرانیوں نے القاعدہ کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔‘
اس سے قبل سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی جانب سے ایران کے القاعدہ اور نائن الیون حملوں سے تعلق کے حوالے سے عائد الزامات کو جھٹلایا جا چکا ہے لیکن کئی برسوں سے القاعدہ آپریٹیوز کی ایران میں موجودگی کی خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں۔
اس معاملے کی براہ راست معلومات رکھنے والے ایک سابق سینیئر امریکی انٹیلی جنس اہلکار کا کہنا تھا کہ 11 ستمبر کے حملوں سے قبل یا اس کے بعد ایرانیوں کی القاعدہ کے ساتھ دوستی نہیں تھی اور موجودہ تعاون کے کسی بھی دعوے کو بہت احتیاط سے دیکھا جانا چاہیے۔ ایران اور القاعدہ ہمیشہ سے فرقہ وارانہ دشمن رہے ہیں۔
2018 سے تہران اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات مسلسل کشیدگی کا شکار ہیں۔ 2018 میں صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کو ترک کردیا تھا۔ معاہدے کے تحت ایران نے پابندیوں کو ختم کرنے کے بدلے میں اپنی جوہری سرگرمیوں کو کم کر دیا تھا۔
اپنے دور صدارت کے آغاز سے ہی صدر ٹرمپ نے ایرانی عہدے داروں، سیاست دانوں اور کمپنیوں پر پابندیاں عائد کردی تھیں تاکہ وہ تہران کو ایک وسیع تر معاہدے پر بات چیت کے لیے مجبور کر سکیں جو اس کے جوہری پروگرام کو مزید محدود رکھ سکے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے اقتدار چھوڑنے سے قبل مزید پابندیوں کی توقع کی جا رہی ہے۔ اگرچہ ان پابندیوں نے تہران کی تیل کی برآمدات میں تیزی سے کمی کی ہے اور عام ایرانیوں کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے لیکن وہ ایران کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لانے میں ناکام رہی ہیں۔
نو منتخب صدر جو بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ ’اگر ایران نے معاہدے پر سختی سے عمل درآمد شروع کیا تو امریکہ جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہو جائے گا۔‘