’آپ ہفتے بھر سوچیں، پھر جواب دیجیے گا،‘ گرودت نے مسکراتے ہوئے وحیدہ رحمان کی طرف دیکھ کر کہا تو وحیدہ کی تیوری پر بل پڑ گئے۔
انہوں نے بھی تنک کر کہا، ’اس میں سوچنے کی کیا بات؟ جو میں نے کہہ دیا، آپ اس بارے میں خود کیوں نہیں سمجھتے؟‘
گرودت کے چہرے سے مسکراہٹ غائب نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے 18 برس کی وحیدہ رحمان کو بغور دیکھتے ہوئے پھر بولنا شروع کیا، ’یہ فلم نگری کا رواج ہے۔‘
وحیدہ رحمان کا پارہ چڑھ رہا تھا۔ انہوں نے انتہائی خفگی کے عالم میں کہا، ’میں گھر سے بھاگ کر نہیں آئی، میری والدہ میرے ساتھ ہیں اور مجھے کسی سے کچھ نہیں چھپانا۔‘
گرودت نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا، ’دلیپ کمار، مدھو بالا، نرگس، مینا کماری کیا انہوں نے ایسا نہیں کیا؟ سبھی کرتے ہیں۔‘
وحیدہ رحمان بھی ڈٹ گئیں، ’مجھے وہ کام نہیں کرنا جو سبھی کرتے ہیں۔‘
’آپ ہفتے بھر میں آئیں، پھر دیکھتے ہیں۔‘ گرو دت نے کرسی سے اٹھتے ہوئے اس جانب اشارہ کیا کہ محفل برخاست ہو گئی ہے۔
ذکر ہو رہا ہے 1955 کے اختتامی مہینوں کا، جب گرو دت نے وحیدہ رحمان کو فلم میں شامل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ نازک اندام اور پرکشش وحیدہ رحمان کے رقص کی شہرت کا ڈنکا پورے حیدر آباد دکن میں بج رہا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وحیدہ رحمان نے کبھی بھی شوبزنس کی چکا چوند دنیا میں قدم رکھنے کا سوچا نہیں تھا۔ خواہش تو ان کی ڈاکٹر بننے کی تھی، لیکن اس قدر بیمار رہتی تھیں کہ والد نے مشورہ دیا کہ وہ میڈیکل کی تعلیم چھوڑ کر کسی اور شعبے کا انتخاب کریں۔ جبھی وحیدہ رحمان نے انتہائی کم عمری سے علاقائی رقص بھرت ناٹیم میں مہارت حاصل کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ اور ان کی بڑی بہن اس قدرماہر ہو چکی تھیں کہ باقاعدہ سٹیج پر پرفارم کرتی تھیں۔ والد صاحب ڈسٹرکٹ کمشنر تھے اور مسلمان خاندان سے تعلق ہونے کے باوجود وہ کبھی بھی بیٹی کے اس شوق کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے۔ والد کا سایہ سر سے اٹھا تو ایسے میں وحیدہ رحمان کی سٹیج پرفارمنس محدود ہو گئی۔
ایک روز ان کے گھر پر مرحوم والد کے پروڈیوسر دوست سی وی آر پرساد آئے اور وحیدہ رحمان کی والدہ کے سامنے پیش کش رکھی کہ اپنی بیٹی کو ان کی تیلگو زبان کی فلم میں کام کرنے کی اجازت دے دیں۔ والدہ نے خدشات کا اظہار کیا کہ پہلے ہی وحیدہ رحمان کو رقص سکھانے پر رشتے دار ناراض ہیں اور فلم میں کام کرنے پر تو ہنگامہ مچ جائے گا، لیکن اس مرحلے پر وحیدہ رحمان نے والدہ کی منت سماجت کی کہ گھر بیٹھے اتنی بڑی پیش کش آئی ہے۔ وہ انکار نہ کریں۔
یوں پہلی بار وحیدہ رحمان کو جس تیلگو فلم میں موقع ملا اس میں ان پر فلمائے گئے گیت میں ان کے رقص نے کھڑکی توڑ کامیابی حاصل کی۔ بھرت ناٹیم رقص وحیدہ رحمان نے ایسا پیش کیا کہ صرف اس گیت کو دیکھنے کے لیے فلم بین جوق در جوق سنیما گھروں کا رخ کرتے۔ مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب یہ گیت آتا تو فلم بین سکرین کی جانب باقاعدہ پیسے اچھالتے،عوام کی فرمائش پر اس علاقائی رقص سے آراستہ گانے کو فلم کے اختتام پر بھی دکھایا جاتا۔
اس فلم کے بعد وحیدہ رحمان نے تیلگو زبان کی دو تین اور فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان میں سے ایک فلم میں این ٹی راما راؤ بھی ہیرو تھے جو بعد میں آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ بھی بنے۔ وحیدہ رحمان اب اپنے اسی منفرد اور غیر معمولی رقص کی وجہ سے جنوبی بھارت بھر میں مشہور ہو چکی تھیں، پروڈکشن ہاؤسز شہر شہر گھوم کر جب بھی شو کرتے تو اس میں وحیدہ رحمان کو خصوصی طور پر شرکت کی دعوت دی جاتی۔
حیدر آباد دکن میں جب گرودت، ڈسٹری بیوٹر کے دفتر میں بیٹھے تھے تو وہیں انہیں وحیدہ رحمان کے رقص اور مقبولیت کا علم ہوا۔ گرودت اس وقت نئے چہروں کی تلاش میں تھے۔ اشتیاق بڑھا اور انہوں نے وحیدہ رحمان سے ملنا چاہا۔ پہلی ہی ملاقات میں گرو دت کو سادگی اور پراعتمادی کا پیکر وحیدہ رحمان بھا گئیں۔ انہوں نے وحیدہ کو بمبئی طلب کیا۔ والدہ کو فلمی ماحول پر شدید تحفظات تھے، لیکن وحیدہ رحمان نے یہاں والد مرحوم کی وہ بات یاد دلائی کہ کوئی ہنر خراب نہیں ہوتا، انسان اُسے خود خراب کرتا ہے۔
تین چار مہینے بعد وحیدہ رحمان گرودت کے مقابل بیٹھی تھیں۔ جنہوں نے انہیں فلم ’سی آئی ڈی‘ کی سیکنڈ ہیروئن کے کردار کی پیش کش کی تھی۔ وحیدہ رحمان کے لیے تو یہ بات ہی خوشی سے کم نہیں تھی کہ وہ دیو آنند کے ساتھ کام کر رہی ہیں جو ان کے پسندیدہ اداکار تھے۔ یہاں تک تو معاملات درست سمت پر جا رہے تھے لیکن جب گرو دت نے وحیدہ رحمان کے نام پر اعتراض کیا تو وہ یکدم چراغ پا ہو گئیں۔
گرودت کا کہنا تھا کہ وحیدہ رحمان کا نام خاصا لمبا ہے، غیر فلمی ہے، دم دار نہیں، اس لیے فلم میں کام کرنے کے لیے وہ ان کا نام تبدیل کریں گے۔ جس پر وحیدہ رحمان کا کہنا تھا کہ آپ کو کیا حق پہنچتا ہے کہ میرا نام بدل دیں؟ گرودت نے سوچنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا تھا۔ جس کے گزرنے کے بعد ایک بار پھر وحیدہ رحمان ان کے سامنے موجود تھیں۔
’کچھ سوچا آپ نے؟‘ گرو دت کا خیال تھا کہ فلمی دنیا کی چکا چوند سے متاثر ہو کر نو آموز وحیدہ رحمان ان کی بات پر قائل ہوچکی ہوں گی۔
’میں وحیدہ رحمان ہوں اور وحیدہ رحمان ہی رہوں گی۔ اگر آپ کو ابھی بھی اعتراض ہے تو میں اس فلم میں کام نہیں کروں گی۔‘ وحیدہ رحمان نے پراعتماد انداز میں یہ کہہ کر ایک بار پھر گرو دت کے ارمانوں کو ٹھنڈا کر دیا۔
لیکن یہ خاصا لمبا ہے۔‘ گرود ت نے دبے لفظوں میں کہا۔
’آپ بلائیں گے تو وحیدہ ہی۔۔ ہاں۔ پورا نام تو سکرین پر ہی آئے گا۔‘ وحیدہ رحمان نے ٹھوس لہجے میں کہا۔
آخر کار گرو دت نے ہتھیار ڈال دیے۔ فلمی معاہدہ تیار ہوا تو گرودت کے سامنے وحیدہ رحمان نے ایک اور شرط رکھ دی اور وہ یہ کہ وہ فلموں میں کسی صورت بلا ضرورت قابل اعتراض ملبوسات زیب تن نہیں کریں گی، ہاں اگر منظر اور کہانی کا تقاضہ ہوگا تو اس بارے میں سوچیں گی۔
وحیدہ رحمان کی اس شرط پر ’سی آئی ڈی‘ کے ہدایت کار راج کھوسلہ نے واویلا مچایا کہ ایک لڑکی جسے ہم ’بریک‘ دے رہے ہیں، وہ اپنی شرائط پر کیسے کام کر رہی ہے؟
لیکن یہاں بھی گرودت نے تحمل مزاجی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے وحیدہ رحمان کی طرف یہ سوال اٹھایا کہ کیا انہوں نے میری کوئی فلم دیکھی ہے؟ جواب نہ میں ملا تو انہوں نے کہا کہ ’ان دنوں میری ایک فلم ’مسٹر اینڈ مسز 55‘ لگی ہوئی ہے، اُسے ضرور دیکھ کر بتایئے گا کہ میں نے کہاں ہیروئن کو کوئی ایسا لباس پہنایا ہے جو عامیانہ یا اخلاق سے گرا ہوا تصور کیا جائے۔
پھر گرو دت کے پروڈکشن ہاؤس اور وحیدہ رحمان کے درمیان تین سال کا معاہدہ طے پایا گیا، جس کے مطابق فلموں میں کام کرنے پر ہر ماہ وحیدہ رحمان کو ڈھائی ہزار روپے معاوضہ ملنے لگا۔ ’سی آئی ڈی‘ جب پردہ سیمیں کی زینت بنی تو اُس نے تہلکہ مچا دیا۔ گو کہ وحیدہ رحمان کا کردار منفی جھلک لیا ہوا تھا، لیکن ان کی اداکاری کو سراہا گیا، بالخصوص ان پر فلمایا گیا گیت ’کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ‘ تو خاصا مقبول ہوا۔ ’سی آئی ڈی‘ کے بعد وحیدہ رحمان، گرودت کی پروڈکشن اور ڈائریکشن میں تیار ہونے والی بیشتر فلموں کا حصہ رہیں۔
وحیدہ رحمان نے اسی ’غیر فلمی‘ نام سے گرودت کی ’پیاسا،‘ ’کاغذ کے پھول،‘ ’چودھویں کا چاند‘ اور ’’صاحب بی بی اور غلام‘ جیسی سپر ہٹ فلموں میں کام کر کے خود کو منفرد اور مختلف اداکارہ تسلیم کرایا، جو اداکاری ہی نہیں رقص میں بھی اپنی مثال آپ رہیں۔ دنیا نے دیکھا کہ وحیدہ رحمان کا نام ہر فلم کی کامیابی بن گیا۔
آج بھی شائقین اور ماہرین فلم ’گائیڈ‘ کے نغمے ’پیا تو سے نیناں لاگے‘ پر وحیدہ رحمان کے رقص کو بالی وڈ کی تاریخ کی سب سے شاندار ڈانس پرفارمنس قرار دیتے ہیں۔
وحیدہ رحمان کی اپنے نام پر جو بحث و تکرار گرودت سے ہوئی تھی، اس نے انہیں اس قدر حساس بنا دیا کہ شادی ہونے کے باوجود بھی انہوں نے اپنا نام بدلا نہیں۔ آج بھی وہ وحیدہ رحمان کے نام سے ہی شناخت کی جاتی ہیں۔