دنیا کی مشہور جھیلوں میں سے ایک سری نگر کی ڈل جھیل پانچ اگست 2019 کے بھارتی اقدام (کشمیر کی خصوصی حیثیت کے حامل آرٹیکل 370 کے خاتمے) کے بعد لگنے والے لاک ڈاؤن کے دوران ایک اور لاک ڈاؤن یعنی کرونا (کورونا) وبا کی پابندیوں کے باعث سنسان پڑی ہے۔
ان حالات میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے گرمائی دارالحکومت کے قلب میں واقع اس جھیل تک پہنچنے والے چند سیاح یہاں کی روایتی کشتی (شکارا) کو ایمبولینس کے روپ میں دیکھ کر حیران رہ گئے۔
ڈل جھیل میں برسوں سے رہائش پذیر ایک ہاؤس بوٹ کے مالک طارق احمد پٹلو کے مطابق یہ پہلی بار ہوا ہے کہ جھیل میں ایک کشتی کو بطور ایمبولینس متعارف کرایا گیا ہو۔
جھیل کی بہتری کے لیے بطور سماجی کارکن خدمات انجام دینے والے طارق احمد نے کہا: ’میری خالہ کرونا کے باعث انتقال کر گئیں اور ان کے جنازے میں شرکت کے بعد میں بھی اس وبا کا شکار بن گیا۔ میں اس وائرس سے متاثر ہونے کے بعد 20 دن تک قرنطینہ میں رہا لیکن میری طبیعت بگڑتی گئی۔ مجھے ہسپتال منتقل کرنے کی ضرورت تھی، لیکن کوئی بھی کشتی والا مجھے جھیل کے پار سڑک تک چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ میں کووڈ 19 سے متاثرہ ہوں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’وبا کے ابتدائی دنوں میں سب خوفزدہ تھے۔ میں انہیں الزام نہیں دیتا، مجھے لگتا ہے کہ شاید میں بھی ایسا ہی کرتا۔ ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد میں ہمیشہ یہ سوچتا رہتا تھا کہ اس صورت حال کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے مجھے کچھ کرنا چاہیے۔ شکارا بوٹ ایمبولینس کی تخلیق ہنگامی اور موجودہ وبائی صورتحال میں لوگوں کی مدد کرنے کے بارے میں میری اسی سوچ کا نتیجہ تھی۔‘
طارق کا کہنا ہے کہ ڈل جھیل میں بہت سے لوگ رہائش پذیر ہیں جنہیں یقیناً ایک چھوٹے میڈیکل ایمرجنسی یونٹ اور ڈسپنسری جیسی سہولیات کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہاں اس طرح کی کوئی چیز نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ڈل جھیل کو دیکھنے کے لیے ہزاروں سیاح بھارت اور دنیا بھر سے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ رات کے وقت یہاں ہنگامی صورتحال سے نمٹنا کتنا مشکل ہے۔ عام طور پر ہمارے پاس چھوٹی کشتیاں ہوتی ہیں لیکن رات کے وقت مریضوں کو منتقل کرنے میں خطرہ ہوتا ہے۔ یہ شکارا ایمبولینس صرف جھیل کے رہائشی ہی استعمال نہیں کریں گے بلکہ جب کسی ہنگامی صورتحال میں یہ سیاحوں کے لیے بھی استعمال ہوگی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طارق نے بتایا کہ اس اقدام کے آغاز سے ہی اس بوٹ ایمبولینس نے سب کی توجہ حاصل کر لی تھی، جبکہ کشتی میں اندرونی فرنشننگ کا کام اب بھی جاری ہے۔
طارق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مزید بتایا: ’یہ عام کشتی جیسی نہیں ہے بلکہ اس میں افراد کی گنجائش دگنی کردی گئی ہے۔ اب اس میں تقریباً 12 افراد سوار ہو سکتے ہیں۔ میں نے ایک موٹر خریدی ہے جو کشتی کے پچھلے حصے میں لگائی جائے گی جب کہ ملاحوں کے بیٹھنے کے لیے بھی الگ جگہ بنائی گئی ہے۔ میں ایک ہنگامی ہیلپ لائن بھی قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جس سے لوگوں کو رابطہ قائم کرنے میں مدد مل سکے گی۔‘
طارق نے مزید بتایا کہ بوٹ ایمبولینس میں تمام وہ بنیادی طبی سہولیات دستیاب ہوں گی جن کی ضرورت ہنگامی صورتحال میں پڑ سکتی ہے۔
انہوں نے حکومت سے اس بوٹ ایمبولینس کے لیے ایک ڈاکٹر مختص کرنے اور ملاحوں کی خدمات دینے کا مطالبہ بھی کیا۔