بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پرانے سری نگر کے علاقے سیف الدین پورہ راجوڑی کدل سے تعلق رکھنے والے محمد اشرف ہر روز صبح چار بجے جاگتے ہیں تاکہ لذیذ روایتی ہریسہ تیار کرسکیں۔
ہریسہ سردیوں کا پکوان ہے، جو چاول اور دنبے کے گوشت کو پیسٹ کی شکل میں پیس کر تیار کیا جاتا اور روایتی روٹی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
مانا جاتا ہے کہ ہریسہ اس وقت سے روایتی ڈش ہے جب فارسی صوفی بزرگ میر سید علی ہمدانی کشمیر آئے۔کہا جاتا ہے کہ جو لوگ ان صوفی کے ساتھ تھے وہ ہریسہ بنانے کا فن جانتے تھے۔ پرانے سری نگر شہر میں ہریسہ بنانے والے بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ ان کے اجداد میں سے کسی نے یہ فن ان لوگوں سے سیکھا۔
محمد اشرف کہتے ہیں کہ یہ 24 گھنٹے کا محنت طلب کام ہے۔ 'ہمارے لیے دن اور رات ایک ہوتے ہیں۔ ہم چند گھنٹے سوتے ہیں اور سہ پہر تین بجے کام شروع کر دیتے ہیں جو اگلی صبح پانچ بجے ختم ہوتا ہے۔'
انہوں نے مزید بتایا: 'جب میں نے اپنے والد اور دادا سے یہ فن سیکھا تو اس وقت میری عمر صرف 10 برس تھی۔ وہ دونوں ہریسہ بنانے کے پیشے سے وابستہ تھے۔'
بقول اشرف: 'ہریسہ کی تیاری کا کام مٹی کے بڑے برتن میں چاول ابالنے سے شروع ہوتا ہے۔ چار کلو گوشت میں ایک کلو چاول کی ضرورت ہوتی ہے اور کتنا بنانا ہے اس کا انحصار طلب پر ہوتا ہے۔ چاولوں کو ابال کر ان کا پیسٹ بنالیا جاتا ہے، جس کے بعد اس میں پانی، خاص قسم کی پیاز، الائچی، نمک، سونف کے بیج اور لونگ شامل کیے جاتے ہیں۔'
'یہ اشیا شامل کرنے کے بعد انہیں لکڑی کی ڈوئی سے اچھی طرح چلایا جاتا ہے تا کہ وہ یکجان ہو جائیں۔آخر میں دبنے کے گوشت کے ٹکڑے برتن میں ڈالے جاتے ہیں۔ اس دوران برتن کے نیچے آگ جلتی رہتی ہے۔ دم دینے کے لیے برتن کے ڈھکن پر وزنی چیزیں رکھی جاتی ہیں۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس طرح سہ پہر تین بجے شروع ہونے والا یہ سفر اگلی صبح چار بجے ختم ہوتا ہے۔
اشرف نے مزید بتایا: 'پورے آمیزے کو اس وقت تک پکایا جاتا ہے جب تک گوشت گل نہیں جاتا۔ علی الصبح گوشت میں سے ہڈیاں الگ کرکے ڈش کو دوبارہ اس وقت تک پکایا جاتا ہے کہ وہ پیش کرنے کے قابل ہوجائے۔'
نئے سری نگر سے تعلق رکھنے والے نوجوان عادل کہتے ہیں کہ کشمیر میں ہریسے کی زیادہ تر دکانیں پرانے شہر کے اردگرد واقع ہیں اور زیادہ تر گاہک صبح کی ٹھنڈک میں ہریسہ کھانے کے لیے اسی جگہ کو ترجیح دیتے ہیں۔
عادل کا کہنا تھا کہ 'ہریسے کا جو ذائقہ ہمیں یہاں ملتا ہے، اس کا مقابلہ گھر میں بنے ہریسے سے نہیں کیا جا سکتا۔'
ہریسہ بنانے والے محمد اشرف کا ماننا ہے کہ 'کوئی اتنی زیادہ محنت نہیں کر سکتا۔ نئی نسل ہریسہ نہیں بنائے گی۔'