ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی سینیٹر کرشنا کماری نے نوجوانوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے آپ پر یقین رکھیں اور پاکستان میں مذہب اور ثقافتی تنوع کو ایک نعمت سمجھیں۔
اسلام آباد میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتمام 14 اور 15 جنوری ہونے والی دو روزہ تعلیمی اور تربیتی ورکشاپ میں سینیٹر کرشنا کماری نے یونیورسٹی کے طلبہ سے مذہبی ہم آہنگی پر بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ نوجوان اپنے آپ پر یقین رکھیں اور پاکستان میں مذہب اور ثقافتی تنوع کو ایک نعمت سمجھیں۔
انہوں نے سندھ کے ایک پسماندہ گاؤں میں جبری مشقت سے لے کر سینیٹ کی رکن بننے تک کے اپنے سفر کی داستان سنائی۔ سینیٹر کماری کے مطابق ان کے مذہب اور خاتون ہونے نے ان کے تعلیمی تسلسل میں کافی مشکلات پیدا کیں لیکن ان کے والد اور خاوند نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان تمام مشکلات کے باوجود پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں ان تھک محنت کرنے والوں کو ہمیشہ راستے ہموار مل سکتے ہیں اور میں اس کی ایک زندہ مثال ہوں۔‘
نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود اور اور معروف سکالر خورشید ندیم کا کہنا تھا کہ اس طرح کے سیمینار ہی طلبہ کو جدید سیاسی نظریات اور معاشرے میں سماجی ہم آہنگی فراہم کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر خالد مسعود کے مطابق پاکستانی عوام اور خاص کر نوجوان نسل کی اکثریت اس تصور سے آگاہ ہی نہیں کہ وہ اس ملک میں کیسا سیاسی نظام چاہتے ہیں۔
خورشید ندیم نے کہا کہ سماجی اور سیاسی طور طریقے وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ مسلم معاشرے کی اس سیاسی پسماندگی کا جائزہ لیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بہت ساری ترقی یافتہ قومیں بھی ایک وقت میں اپنے سیاسی مستقبل کو لے کر الجھنوں کا شکار رہ چکی ہیں۔
دوسری جانب پاک انسٹی ٹیوٹ آف پارلیمنٹری سٹڈیز کے سابق چیئرمین اور معروف آئینی ماہر ظفر اللہ خان اور ڈائریکٹر جنرل آف پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس ڈاکٹر فوزیہ سعید نے بھی طلبہ کے ساتھ آئینی حقوق اور کردار کے بارے میں گفتگو کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ظفر اللہ خان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر یونیورسٹی کے طلبہ نے آئین نہیں پڑھا ہوتا جبکہ آئین ایک ریاست کا دماغ ہوتا ہے۔ انہوں نے نوجوان طلبہ کو آئین کے اہم نکات اور شقیں پڑھنے کا مشورہ بھی دیا جبکہ ڈاکٹر فوزیہ سعید نے طلبہ کو پاکستان میں تنوع کو قبول کرنے اور معاشرتی رنگوں کو سمجھنے کا مشورہ دیا۔
پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نےاس موقع پر کہا کہ طلبہ کو غلط فہمیوں اور تعصب سے نکل کر غیر جانبدار ہو کر سوچنا چاہیے۔ ان کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ سماجی رویے خیالات کی وجہ سے بدلتے ہیں نہ کہ واقعات کی وجہ سے۔
انہوں نے طلبہ کو بتایا کہ وہ کیسے حقیقت پر مبنی رائے رکھ سکتے ہیں اور کس طرح کتابیں پڑھ کر اپنے دماغوں کو کھولنے کے ساتھ سوچنے کی صلاحیتوں کو بڑھا سکتے ہیں۔
ورکشاپ کے دوران طلبہ کی ملاقات معاشرے میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی خواتین سے کروائی گئی۔ عنبر رحیم شمسی، پیورش چوہدری، بسمہ شوکت اور ماروی راجپوت نے طلبہ کے ساتھ اپنے معاشی تجربات شیئر کیے اور بتایا کہ کیسے وہ اپنے آس پاس کے لوگوں سے متاثر کن خیالات حاصل کرسکتے ہیں اور نئے کاروبار شروع کرکے معاشرے میں رول ماڈل بن سکتے ہیں۔
سیمینار کے آخر میں صحافی اور سوشل ایکٹوسٹ سبوخ سید نے حال ہی میں کرک میں ہندو سمادھی پر ہونے والے حملے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا۔