بظاہر کوئی حقیقت سامنے آتی ہے تو بجائے اس کے کہ اسے دیکھیں، اس کی تحقیق کریں، اس کی تہہ تک پہنچیں، فوراً ایک طرف نعرے بازی شروع ہوجاتی ہے ایک نیا جوش و ولولہ نظر آتا ہے اور دوسری طرف ایک نئی سازش کی طرف نکل جاتے ہیں۔
اب نئی کہانی کیا ہے ؟ اب کہانی ہے کاوے موسوی کی سنائی ہوئی براڈشیٹ اور پاکستان کا جو احتساب کا ڈرامہ ہے اس کی ۔
کاوے موسوی نے جو باتیں کی ہیں انہوں نے کیا بتایا؟ نمبر ایک پاکستان میں 2000میں ان کی کمپنی کو ذمہ داری سونپی گئی کہ کرپشن کے کیسز کی تہہ تک پہنچیں۔ ان کے کہنے کے مطابق انہوں نے کام شروع کیا لیکن 2002 میں جب انہوں نے اس بارے میں معلومات دینی شروع کیں تو معاملہ گڑبڑ ہوگیا۔ کاوے موسوی کہتے ہیں کہ جب انہوں نے آفتاب شیرپاؤ اور عامرلودھی کے نام لئے تو ان سے کہا گیا کہ ان لوگوں کی تفتیش چھوڑ دیں اور پھر جب ان لوگوں نے تفتیش روکی تو کمال یہ ہوا کہ آفتاب شیرپاؤ کو2002 کے بعد پرویز مشرف کی حکومت میں وفاقی وزیر داخلہ بنادیا گیا۔ اس بعد نہ صرف انہیں کام سے روکا گیا بلکہ ان سے معاہدہ بھی ختم کرنی کی کوشش کی گئی۔
کاوے موسوی کہتے ہیں کہ27ایسے اکاؤنٹس ہیں جن کی میں تحقیقات کررہاتھا۔ ان اکاؤنٹس میں اربوں ڈالر تھے اور اس کی ہمیں معلومات بھی مل گئی تھیں۔حکومت پاکستان نے اس وقت ہمیں روک دیا تھا کہ معاہدہ ختم کرنا ہے۔ پھر ان کی ملاقات پرویز مشرف سے بھی ہوئی اور انہوں نے ان سے کہاکہ مجھے کہا گیا ہے کہ تحقیقات کو روکنا ہے ہم ان کو آگے نہیں لے کرجاسکتے۔اس وجہ سے معاہدہ بھی ختم ہوا اور کام روک دیا گیا۔
کاوے موسوی کے بقول تحقیقات کا کام اس وجہ سے نہیں روکا گیا کہ ان کے پاس کوئی انفارمیشن نہیں آرہی تھی۔ یہ تو اب کہا جارہا ہے۔ اس وقت کی بات تو بالکل کلیئر ہے کہ ان کواس لئے روکا گیا تھا کہ پرویز مشرف حکومت کا فیصلہ تھا کہ وہ اس معاملے کو اس طرح آگے نہیں لے جانا چاہتے اور فیصلہ کیا گیا کہ معاہدہ کو ختم کر دیا جائے۔ تیسری بات یہ کہ جب کاوے موسوی کو روکاتو وہ عدالت میں گئے۔ انہوں نے جو تحقیقات اب تک کی تھیں ان کے پاس س جو بھی ثبوت تھے وہ عدالت میں پیش کئے انہی کی بنا پر عدالت نے فیصلہ کرنا تھا ۔یہ بھی یاد رہے کہ کاوے موسوی کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک ارب ڈالر کا جو اکاؤنٹ تھا اس کو برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کو رپورٹ کردیا تھا ۔
کاوے موسوی جو بات کررہے تھے وہ ہوائی فائر تو نہیں تھا۔کیوں کہ عدالت نے ان کے تمام ثبوتوں کی بنیاد پر ہی فیصلہ کیا ہوگا ۔کاوے موسوی جو بتارہے ہیں کہ ان کے پاس معلومات تھیں اور ان کو روکا گیا تو ان کی کچھ کاوشوں کا ہی نتیجہ ہوگا ۔ وہ کچھ آؤٹ پٹ دے رہے تھے جس کو دیکھ کر لندن کی عدالت نے انکے حق میں فیصلہ دیا۔ چوتھی بات یہ کہ اس میں تو کوئی ایشو ہی نہیں کہ اس میں ہم یہ دیکھیں کہ ان کے پارٹنر کون تھے ؟اور کون نہیں تھے یاکاوے موسوی کیا کررہے تھے ؟اور کیا نہیں ۔کاوے موسوی کون ہیں اوران کی اہلیت کیا ہے ؟سب سے پہلے تو پرویز مشرف کے زمانے میں جوجنرل امجد کانیب تھا اس کو دیکھنا چاہیے تھا۔ جو بھی انہوں نے فیصلہ کیاوہ تو بہر حال فیصلہ ہوگیا ۔اب لندن کی عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے اس کی بنیاد پر پاکستان حکومت نے ان کو پیسے دیے۔ اس بنیاد کو تو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
یا تو ہم کہہ دیں کہ دنیا کی ہر عدالت اپنی مرضی کے مطابق چلتی ہے۔اگر ہم یہ مان لیں کہ لندن کی عدالت پیشہ ورانہ انداز میں کام کرتی ہے توکوئی وجہ نہیں کہ ہم اس سے ہٹ کر سوچیں۔ لندن کی پروفیشل عدالت قانون کے مطابق چلتی ہے ۔یہ عدالت جس نے ابھی انڈین اینکر ارنب گوسوامی کے خلاف پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا ہے اوراتنے بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں تو یہ بات تو مستند ہے کہ لندن کی عدالت میں جو فیصلے ہوتے ہیں وہ ثبوتوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔
کاوے موسوی کے پارٹنر کون تھے یا نہیں تھے ،بات یہ ہے کہ فیصلہ میرٹ پر ہوا ہے اور یہ فیصلہ پاکستان کے خلاف ہوا ہے ۔فیصلہ یہ تھا کہ پاکستان کی حکومت براڈشیٹ کا حق مار رہی ہے ان کو پیسہ ملنا چاہئے اور پاکستان حکومت پیسہ نہیں دینا چاہ رہی تھی اور پہلے 2007 میں ایک غلط انسان کو پیسہ دے دیاگیا تھا۔بہرحال اب جو معاملہ ہے وہ موسوی کی اہلیت کا نہیں ہے۔ براڈ شیٹ کامسئلہ پاکستان میں احتساب کا جو طریقہ کار ہے اس پر سوالیہ نشان ہے ۔کچھ ایسے سوالات ہیں جو ہم خود اٹھاتے رہتے ہیں بار بار اٹھاتے ہیں۔اب ہم یہ کہیں گے کہ پاکستان میں جو سیاسی انجینئرنگ اور احتساب ہورہا ہے یہ اس کا شاخسانہ ہے۔
کاوے موسوی کے انٹرویوز کے بعد جو اہم سوال اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں آخر طاقت کا جوکھیل ہے اس میں احتساب کا کیا مستقبل ہے؟ کاوے موسوی کے انٹرویوز میں جوحقائق سامنے لے کر آئے ہیں وہ یہ ہیں کہ چاہے جنرل پرویز مشرف ایک آمر تھے۔وہ احتساب کرنے آئے۔ چاہے ان کی حکومت ہو۔ انہوں نے کیا کیا؟ اس سے پہلے ہمیں معلوم ہے کہ رحمان ملک اور سیف الرحمان نے تحقیقات کیں پیپلزپارٹی اور پی ایم ایل این نے ایک دوسرے کے خلاف تحقیقات کیں ۔یہ بات تو مستند ہے کہ اصل جو حقائق سامنے آئے وہ یہ ہیں کہ بڑی پارٹیز کے لیڈرز کے خلاف جوبڑے بڑے کیسزمیں جو تحقیقات ہوئیں وہ اس وقت کی سیاسی حکومتوں نے کروائی تھیں لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟2006 میں میثاق جمہوریت ہوگیا اس کے بعد تواحتساب ایک دوسرے کا نہیں ہونا تھا۔ پھر یہ بھی سوال اٹھا کہ احتساب صرف سیاست دانوں کا ہی کیوں ہو دوسروں کا کیوں نہ ہو؟ چاہے وہ ججز ہوں یا جنرلز ۔
جنرل پرویز مشرف جب آئے اور انہوں نے جواحتساب کی بات کی اورجنرل امجد نے کام شروع کیا، جنرل امجد یہ بات منظر عام پر لائیں یا نہ لائیں یہ بات تو مستند ہے اور حقائق کی بنیاد یہ کہی جاسکتی ہے کہ جنرل امجد نے سابق آرمی چیف کیخلاف انکوائری شروع کی اور جنرل پرویز مشرف نے ان کو بلا کر یہ کہا کہ آپ کس طرح آرمی چیف کے خلاف انکوائری کرسکتے ہیں؟ اس کا فوج کے مورال پر کیا اثر ہوگا؟ جنرل امجد کو فوج کے خلاف وہ انکوائری بند کرنا پڑی۔
چاہے سیاست دان ہوں، ججز یا جنرلز ،پچھلے ادوار کا احتسابی عمل اس مقام پر جا کر رک جاتاہے ۔ہر ایک اپنے آپ کو بچارہا ہے،ادارے کو، دوست احباب کو یا پھر اپنے جو حلیف کو۔یہ بات بالکل واضح ہے۔اگر اس میں کوئی شک رہ گیا تھا کہ احتساب پولیٹکل انجینئرنگ کے لیے ا ستعمال ہوتا ہے۔ ہر ایک پاور گیم میں اس کو استعمال کرتا ہے تو براڈ شیٹ کیس میں یہ بات سامنے آگئی ہے۔ آفتاب شیر پاؤ کو جیل میں ڈالا گیاپھر وہ یوکے چلے گئے اور وہاں ان سے سیٹلمنٹ ہوئی اور ان کو پیسے بھی واپس ملے اور پھر عہدہ بھی ملا۔ یہ جنرل پرویز مشرف کے دور کی بات ہے۔ بہت سے ایسے نام ہیں جن کے ساتھ سیٹلمنٹ ہوئی۔ اس میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ احتساب کا عمل ایک کھیل ہے جو اب کہاں جاکررکے گا ؟کیا پچھلے ادوار کا احتساب ہوسکتا ہے اور کیسے ہوسکتا ہے اورکون کرے گا ؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اصل میں ملین ڈالر سوال تو یہی ہے کہ اب جو براڈ شیٹ کا کیس ہے اس میں یہ آپ کرسکتے ہیں کہ آپ اصل معاملے سے ہٹ جائیں کہ کاوے موسوی کون سا فراڈ ہے یا ان کے جوپہلے سی ای او تھے وہ کیا فراڈ تھے؟ سی آئی اے کے تھے یا ایف بی آئی کے تھے؟ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے حوالے سے جو سوال اٹھتے ہیں ان کا جواب کون دے گا ؟ کاوے موسوی نے تو کہہ دیا کہ بہت سے سوالات جو آپ کے ذہن میں ہیںان کے جوابات جو لندن کورٹ کے جج سر انتھونی ایونس کے فیصلے میںملیں گے ۔یہ اب عمران خان صاحب کا فیصلہ ہے کہ وہ بحیثیت وزیراعظم ،جو یہ ججمنٹ آئی ہے جس کے نتیجے میں پیسے دینے پڑے ہیں اس کو عام کریں گے یا نہیں؟ کیوں کہ اس فیصلے میں بہت سے سوالات کے جوابات سامنے آجائیں گے کہ کس نے کیا کیا ؟
بہرحال فیصلے کو منظر عام پر لانا بہت اہم ہے۔ وزیراعظم اگر اس معاملے کو آگے بڑھا نا چاہتے ہیں تو انہیںاس فیصلے کو منظر عام پر لانا پڑے گا۔ ایک مرتبہ فیصلہ پبلک ہوجائے پھرآگے دیکھا جائے گاکہ احتساب کا عمل کہاں جاتا ہے ۔ اب ایک سوال باقی ہے کہ کیا احتساب سیاسی اور پاور پلے سے ہٹ کر کرنا ممکن ہے؟پاکستان کی پچھلے چار دہائیاں اس بات کی دلیل ہیں کے احتساب وہ آلہ ہے جو تقر یبا ہر سیاسی پاور پلے میں ایک ہتھیار کی طر ح استعمال ہوتا ہے۔
براڈ شیٹ کے معاملے نے پرانے سوال پھر سے اٹھا دیے ہیں۔ وزیراعظم نے نے جو ش میں اسکو پانامہ ٹوکا لقب دیا جب کہ میاں نواز شر یف نے اسے اپنی بے گنا ہی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ۔وہ دونوں غلط ہیں یا قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں یا خود نا سمجھ ہیں ۔ براڈ شیٹ کیس نے صرف نواز شریف کے حوالے سے سوال نہیں اٹھائے اس نے ہر حکومت اور پورے نظام پر سوال اٹھائے ہیں اور جہاں تک ایون فیلڈکیس کا سوال ہے وہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا ۔یہ کیس سپریم کورٹ میں اپیل میں ہے۔ اس وجہ سے یہ کیس اس معا ملے سے نہیں جڑا۔بال سیدھا سیدھا عمران خان کی کورٹ میں ہے۔ کیا وہ براڈ شیٹ کیس میں پاکستان کے خلاف لندن عدالت کافیصلہ عام کریں گے یا نہیں؟ کیونکہ کاوے موسوی نے تو کہہ دیا ہے کہ حکومت پاکستان اگر اس فیصلے کوپبلک کرنے کا کہے گی تو میں اس کے لئے راضی ہوں۔براڈ شیٹ کیس کا فیصلہ منظر عام پر آجائے تو سوال یہ اٹھے گا کہ آخر اس ملک میں احتساب کا مستقبل کیا ہے ؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مشتمل ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔