پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ مئی جون سے شروع ہوا ہے۔
سب سے پہلے پارلیمان میں اپوزیشن لیڈر خواجہ آصف نے وزیرخارجہ سے یہ پوچھا کہ آپ نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں کچھ کہا ہے، اور اس بات کو کلیئر کریں کہ اس پر پاکستان کی کیا پالیسی ہے؟
اس وقت شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم کسی صورت اس وقت تک تسلیم نہیں کریں گے جب تک فلسطینیوں کو اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق الگ ملک نہیں مل جاتا اور جب تک Two state solution کو تسلیم نہیں کیا جاتا، اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ساتھ ساتھ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا جو نظریہ ہے اور جو پالیسی ہے اس کے حوالے سے القدس الشریف کو فلسطین کا دارالحکومت مانا جائے گا۔
یہ دونوں باتیں تو بڑی واضح ہوگئیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم کسی کے دباؤ کے تحت اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ اب حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ تواتر کے ساتھ وزیراعظم کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یقینا وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے اور یہ کچھ وقت کی ہی بات ہے۔
اندر خانہ پاکستان میں یہ بات چیت ہورہی ہے، پالیسی میکنگ کے اسٹیک ہولڈرز یہ بات کررہے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرلیا جائے۔
سوشل میڈیا پر خبریں دیکھیں کہ کسی نے انٹرویو دے دیا، کسی نے انٹرویو لے لیا، پھر یہ بھی خبر ملی کہ پاکستان کی طرف سے وزیراعظم کے خاص ایلچی معاون خصوصی اسرائیل سے بات کرنے گئے ہیں، پھر یہ بھی کہا گیا کہ زلفی بخاری کی اسرائیل کے کچھ لوگوں سے دوستی ہے، اسی طرح کی بہت سی قیاس آرئیاں کی گئیں۔ کچھ نام لیے گئے کچھ نہیں لیے گئے، جب ہم نے اپنی تحقیقات کیں تو پتہ یہ چلا کہ اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ لیکن بہرحال یہ ضرور ہے کہ ایک بہت ہی خاص حکمت عملی کے تحت یہ کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان کی پالیسی میکنگ میں سیکورٹی کے جو اسٹیک ہولڈرز ہیں ان کو کسی نہ کسی طریقے سے بالواسطہ یا بلاواسطہ راضی کیا جائے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے۔
خاص طور پر یہ بات اس لیے سامنے آئی کہ بہت سے عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔ یواے ای میں اسرائیلیوں کا باقاعدہ آناجانا شروع ہوگیا ہے اور یہ بھی لگ رہا ہے کہ مراکش وغیرہ بھی جلد ہی اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔
تو یہ لگ رہاتھا کہ عرب ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا جو رجحان پیدا ہوا ہے پاکستان بھی اس کا حصہ بنے گا۔ پاکستان پر بالواسطہ یا بلاواسطہ دباؤ ڈالا جارہا ہے، اس لیے کہ عرب ممالک اور مسلم ممالک میں پاکستان کی ایک خاص اہمیت ہے۔ عرب ممالک میں خاص طور پر اس لیے کہ پاکستان کا ایک سیکورٹی سیٹ اپ ہے جو عرب ممالک میں مختلف سطحوں پر موجود ہے، چاہے ٹریننگ دینے کے لیے ہو۔ ان کے لوگ ہمارے ملک میں آتے ہیں یا ہمارے سیکورٹٰی آفیسرز وہاں موجود ہیں، اور پھر پاکستان اکلوتا مسلمان ایٹمی ملک ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان کی تاریخ پر ہمیں فخر کرنا چاہیے، جب پاکستان پیدا ہوا، شاید کچھ مہینوں کا تھا، بہت سی مشکلوں میں گھرا ہوا تھا، ہندوستان اور اس خطے کے حوالے سے کوئی کہہ رہا تھا کہ یہ ملک نہیں بچے گا، ہندوستان کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ شروع ہوگیا تھا، جنگ کا ماحول تھا لیکن ان حالات میں بھی قائداعظم محمد علی جناح نے امریکن صدر ٹرومین کو خط لکھا اور کہا تھا کہ اسرائیل کی پیدائش کے خلاف تاریخ بولے گی اور تاریخ روئے گی کہ یہ فلسطینیوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔
پاکستان کی تو یہ تاریخ ہے اور کمٹمنٹ رہی ہے کہ اصول پر چلیں اور ظلم اور زیادتی نہ کی جائے اور فلسطینیوں کی زیادتی کے خلاف ایک بالکل نوزائیدہ پاکستان بول اٹھا تھا، تو پاکستان کی فلسطینیوں کے ساتھ کمٹمنٹ پرانی ہے۔
اس حوالے سے اسرائیل اور اس کے حامی ممالک اضطراب کا شکار رہتے ہیں، اور یہ بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان بننے سے لے کر اب تک جہاں بھی مسلمانوں کیخلاف ظلم ہوا پاکستانیوں نے آواز اٹھائی ہے۔
جب فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ ہورہی تھی اس میں حکومتوں کے معاہدے کے تحت پاکستان کی فوج گئی اور پاکستان کے لوگ بھی آگے جاکر ان مسلمانوں کے ساتھ مل کر لڑے ہیں ۔
پاکستان نہ صرف فلسطین کیلئے کھڑا ہوا بلکہ جب مغربی ممالک الجیریا ، تیونیسیا اور مراکو نوآبادیاتی کی جنگ لڑ رہے تھے اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے اقوام متحدہ میں تاریخی تقاریر کیں اور جو نوآبادیاتی ممالک تھے ان کے حق میں بولے۔ کچھ ممالک کو تو پاکستانی حکومت نے 50 اور 80 کی دہائی میں پاسپورٹ بھی دیے کہ وہ پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کرسکیں، تو پاکستان کی ایک تاریخ ہے۔
یہ بات درست ہے کہ 80 کی دہائی کے بعد پاکستان کی ہر حکومت کا کسی نہ کسی طریقے سے اسرائیل سے رابطہ رہا ہے۔ کبھی پاکستان نے اسرائیل سے اسلحہ خریدا اور کبھی کوئی مسئلہ ہوا تو دونوں ممالک کے درمیان بات چیت ہوئی، پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ریاض کھوکھر جو امریکا میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کا اسرائیل کے ساتھ رابطہ رہا ہے۔ جو ریاستیں ہوتی ہیں ان کے تعلقات رہتے ہیں کبھی دشمنی کبھی دوستی اورکبھی اپنی غرض سے تعلقات رہتے ہیں۔
پاکستان نے اپنی غرض سے اسرائیل کے ساتھ بات چیت کی ہے، کہیں اسلحہ خریدا، کہیں تیسرے فریق کے ذریعے کسی سفارتی معاملے پر بات چیت کی، کبھی یہ ہوا کہ انڈیا اسرائیل کے ساتھ مل کر حملہ نہ کردے، اس پر سفارتی ذرائع سے بات چیت رہتی ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ امریکا اور ایران جواتنے سخت دشمن ہیں ان کے درمیان بھی بیک ڈور رابطے رہے ہیں۔ بات چیت کا مسئلہ نہیں ہے مسئلہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا ہے، تو پاکستان نے یہ بات واضح کردی ہے کہ وہ اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں ملے گا۔
اس وقت پاکستان کی جو اہمیت ہے وہ اپنی جگہ موجود ہے۔ تمام ممالک کا خیال ہے کہ اگر پاکستان اس گروپ میں آجائے جو حال ہی میں اسرائیل کو تسلیم کررہے ہیں تو شاید اسرائیل کے لیے آسانی پیدا ہوجائے۔
اسرائیل کے لیے آسانی کیا ہوجائے، امریکا پاکستان کو اپنے خاص الخاص ممالک جیسے اسرائیل اور انڈیا ہیں اس صف میں کھڑا کردے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ پاکستان اس طرح کی سوچ کو مثبت نہیں سمجھتا، پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ دشمنی نہیں چاہیے لیکن دوستی بھی نہیں کرنی اور اس کو تسلیم نہیں کرنا۔
ہمارا اپنا جو کشمیر کا معاملہ ہے اگر آپ اصول پسندی کو بھی قائم رکھیں اگر اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو پاکستان نے جو کشمیر پر موقف اپنایا ہے وہ موقف بالکل رد ہوجاتا ہے۔
آج کی اچھی بات یہ ہے کہ صحافیوں کے ایک گروپ سے ملاقات میں وزیراعظم عمران خان سے جب کسی نے پوچھا کہ ہم اسرائیل کو کیوں تسلیم نہیں کرتے اور وہ سوچ یہ ہے کہ اسرائیل سے دشمنی لی تو امریکا بھی ہمارے ساتھ زیادہ تعلقات نہیں بڑھاتا، اس لیے ہمارے ساتھ انڈیا کی بھی دشمنی بڑھی ہوئی ہے یہ ایک بہت سادہ سوچ جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔
لیکن بہر حال عمران خان نے اس وقت کہا تھا کہ آپ یہ سوچیں کہ اسرائیل دن رات قتل و غارت کررہاہے، فلسطینیوں پر اتنے ظلم ڈھا رہا ہے، میرا دل ہی نہیں مانتا کہ میں اس کو تسلیم کروں۔
ان کی یہ بڑی واضح پوزیشن ہے ابھی تین روز قبل ان سے دوبارہ پوچھا گیا کہ آپ اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں قائداعظم کے نقش قدم پر چلوں گا اور پاکستان جمہوری ملک ہے اور یہاں کے لوگ نہیں چاہتے تو ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔
پھر اپنا وہی موقف دہرایا کہ پاکستان اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق، ان کا الگ ملک نہیں مل جاتا۔
پاکستان Two state solution کو سپورٹ کرتا ہے، اب یہ قیاس آرائیاں رہیں گی، نفسیاتی جنگ جاری رہے گی، کوشش کی جائے گی کہ ایسا ماحول بنایا جائے اور پاکستان میں لوگوں کو راضی کیا جائے ۔