کثرت التفات ہو یا الزامات دونوں ہی برے ہیں۔ اگر طاقتور حلقے زندگی کا یہ سادہ راز سمجھ لیں تو بہت سی مشکلات آسان ہو سکتی ہیں۔ مگر طاقت کا خمار منطق کو ہر موڑ پر پسپا کرتا ہے۔ لہٰذا سمجھ بوجھ کی بات بھینس کے آگے بجائی بین کی طرح بے اثر ہی رہتی ہے۔
براڈ شیٹ سکینڈل کے معاملے میں کچھ ایسا ہی ہوا۔ اس گڑے مردے کو برطانوی عدالت کے ایک فیصلے نے اکھاڑا۔ مشرف دور میں سیاسی انتقام کو بین الاقوامی سطع پر لے جانے کی یہ کوشش تقریبا دو دہائیوں کے بعد گلے میں پڑ گئی۔
بدعنوانی سے حاصل کی ہوئی دولت کا کھوج نکالنے کے نام پر کاوہ موسوی نامی شخص کی کمپنی نے تین سال تک ہمارے دانش مند حکمرانوں کو بیوقوف بنایا۔ پھر 2008 میں دیوالیہ ہونے کے بعد بمشکل اپنے کام کا آغاذ کرتے ہی پاکستانی حکومت کے خلاف معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کا مقدمہ کیا اور نتیجتا ساڑھے چار ارب روپے کی رقم برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اکائونٹ سے نکلوا لی۔
اب مقدمے کے قانونی اخراجات بھی غریب عوام کے سر تھونپے جا رہے ہیں۔ بیچ میں ایک فراڈیے نے اس کمپنی کا نام استعمال کر کے 15 لاکھ ڈالر مزید حکومت سے ہتھیا لیے۔ اس مقدمے پر آنے والے اخراجات، قومی وسائل کا استعمال اور درد سر، سب کو اکٹھا کریں تو ان سب کا بل ملا کر 59 ملین کے قریب بنتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 20 سال سے پاکستانیوں کا خون چوسنے والی یہ کمپنی ہمیشہ کے لیے بلیک لسٹ کر دی جاتی۔ مگر پھر وہی پرانی صفت آڑے آئی جس کو انتقام کا اندھا پن کہتے ہیں۔ اس کمپنی کے مالکان نے کمال دیدہ دلیری سے دوبارہ نواز شریف کا نام لے کر حکومت کو الو بنانے کا زبردست بندوبست کیا۔
لندن میں موجود مشکوک موقع پرست اور ہر وقت جلدی سے پیسہ بنانے والے لوگوں سے رابطے کیے اور وزیر اعظم ہاؤس سمیت ملک کے تمام اہم اداروں کے سربراہان کو پھر سے چھپی ہوئی دولت کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا۔ اس کمپنی کے وکلا کی طرف سے تیار کردہ ایک دستاویز اب سوشل میڈیا پر ہر جگہ موجود ہے۔ اس میں ہر وہ چیز لکھی گئی ہے جس کے بارے میں سرکاری طور پر مکمل خاموشی اور عوام سے چھپانے کا بہترین بندوبست کیا گیا تھا۔ اب ان تفصیلات کے سامنے آنے کے بعد بہت کچھ واضح ہو گیا۔
اس دستاویز کو غیر معمولی اہمیت نہ ملتی اگر وزیر اعظم عمران خان براڈ شیٹ کے مالک موساوی کے اول فول بیانات کو سنجیدہ شواہد کے طور پر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پیش نہ کرتے۔ مگر آج کل سرکاری حلقوں میں کسی بیان کے مستند ہونے کے لیے اس کا نواز شریف کے خلاف ہونا ہی کافی ہے۔
وزیر اعظم کے اس اصرار کے بعد کہ موسوی کے بیانات باوزن اور قانونی حیثیت کے مالک ہیں، اس کے وکلا کی اس تحریر کو تجزیاتی طور پر رد کرنا ممکن نہیں۔ لہذا ہر کوئی اب اس دستاویز کا حوالہ دے رہا ہے جو کھل کر بتاتی ہے کہ کس طرح وزیر اعظم کی احتسابی ٹیم کے ممبران، اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر اور حساس اداروں کے مبینہ اعلی افسران موساوی کے ساتھ مختلف اوقات میں ایک اور معاہدے کے حوالے سے قریبی روابط رکھے ہوئے تھے۔
لندن سے ظفر علی نامی شخص موسوی کا نمائندہ بن کر ملک بھر میں دندناتا پھر رہا تھا۔ اس کے لیے ہر دروازہ کھل جا سم سم کہنے سے پہلے ہی کھل جاتا تھا۔ اس کے اپنے بیان کے مطابق وزیر اعظم نے اس کی ذات کے حوالے سے متاثر کن باتیں کیں۔ وہ وزیر اعظم کو بطور صوفی متعارف کرواتا ہے۔ وزارت قانون ہو یا اٹارنی جنرل کا آفس سب قطار بنا کر اس شخص سے موساوی کے ساتھ معاہدے کے مندرجات طے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
انٹیلی جنس اداروں کے نمائندگان سے کھلی بات چیت اور اپنے مختصر سروسز کیریئر کے پر مسرت اور نہ ختم ہونے والے فوائد پر فخر کرتا ہوا یہ شخص اس دستاویز کے مطابق یہ معاہدہ کروانے کے قریب پہنچتا ہے کہ حالات پلٹا کھاتے ہیں اور افسران موسوی کے ساتھ بات چیت کا معاملہ اچک لیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد ایک پورے صفحے پر سنجیدہ الزامات کا ایک بیانیہ ہے جو موساوی کے وکلا نے قلم بند کیا۔ اختتامی نوٹ میں یہ لکھا کہ نواز شریف کے خلاف تحقیقات پاکستان کے نمائندگان کی طرف سے اپنے حصے کی طلب کی وجہ سے پایہ تکمیل تک نہ پہنچائی جا سکیں۔
اس دستاویز میں تاریخیں، عہدے اور مختلف کرداروں کے بارے میں دی گئی معلومات بعض جگہوں پر کافی کمزور ہیں۔ بعض پیراؤں میں مضحکہ خیز باتیں بھی لکھی ہیں کہ جیسے ظفر علی کی طرف سے موسوی کو یہ پیشکش کہ اگر عمران حکومت اس سے معاہدہ نہیں کرتی تو اس کو آصف علی زرداری سے بات چیت کرنی چاہیے۔
عام حالات میں اس قسم کی دستاویز کو یا تو ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے اور یا پھر اس کو بنیاد بنا کر موسوی اور اس کی کمپنی کی قانونی طور پر گردن ناپنی چاہیے تھی۔ لیکن چونکہ موسوی بظاہر شریف خاندان کے پیچھے پڑا ہے اس وجہ سے ایسی تجاویز کم از کم موجودہ نظام میں قابل سماعت نہیں۔
یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ موسوی جیسے کردار اور براڈ شیٹ جیسی کمپنیاں کسی نہ کسی طرح پاکستانی نظام کے تمام مدافعتی بند توڑ کر اپنا الو سیدھا کرتی رہتی ہیں۔ افسانوی کردار شائی لاک کی طرح پاکستانی ٹیکس پیئر کی چمڑی کھینچ کر پیسے وصول کرنے والا موسوی بعض چینلز میں بطور ہیرو کے طور پر انٹرویوز دیتے ہوئے نظر آتا ہے۔
کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ یہ کمپنی ملک دوست ہے یا ملک دشمن؟ اور کیسے اپنے حق میں فیصلہ آنے کے بعد اس کی طرف سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو بطور قومی اثاثہ قابو کرنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی؟ جو شخص تمام تر ریاستی مدد اور وسائل کے باوجود ذرہ برابر شواہد سامنے نہ لا سکا اس پر کیوں کر دوبارہ سے اعتماد کیا جا رہا ہے؟
نہ ہی کوئی یہ سوال اٹھاتا ہے کہ برطانیہ میں موجود مشکوک کردار کیسے پاکستان کے ایسے ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں جہاں پر بڑے بڑے مقامی سورماوں کا پہنچنا محدود متصور ہوتا ہے؟ یہ کیا گھن چکر ہے کہ ایک کمپنی نہ اپنے کام میں کامیاب ہوتی ہے اور نہ اپنا جرمانہ چھوڑتی ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ دوبارہ سے کوئی معاہدہ کرنے پر کوئی پابندی لگائی جاتی ہے۔
وہ پاکستان کے اداروں پر تہمت لگائے، سب کو مختلف الزامات کی زد میں لائے، جو چاہے بولے اس پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ آخر اس ملک میں موساوی اور براڈ شیٹ کا کون سا ایسا محافظ ہے جو تمام ریاست سے زیادہ طاقتور ہے؟ اس کا جواب کون دے گا؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مشتمل ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔