پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ میں پولیس کے شعبہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے پاکستان سے چندہ اکٹھا کرکے کرپٹو کرنسی بٹ کوئن میں تبدیل کرنے کے بعد شام اور عراق میں سرگرم شدت پسند عسکری گروہ داعش سے تعلق رکھنے والی جہادی خواتین کو بھیجے جانے کا انکشاف کیا ہے۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل سی ٹی ڈی عمر شاہد نے پیر کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ پاکستان سے پیسے جمع کر کے داعش کو شام بھیجنے اور دہشت گردی میں مالی معاونت کے حوالے سے کافی عرصے سے تفتیش جاری تھی اور آخر کار سی ٹی ڈی نے کراچی میں کینٹ سٹیشن کے قریب محمد عمر بن خالد نامی شخص کو حراست میں لیا۔
عمر شاہد کے مطابق محمد عمر بن خالد کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی میں فائنل ایئر کے طالب علم ہیں اور ان کے فون سے لی گئی معلومات کے مطابق ان کے فون میں رقم کی منقلی والا اکاؤنٹ تھا۔
پولیس افسر نے بتایا کہ ملزم لوگوں سے چندہ اس اکاؤنٹ میں منگوا کر حیدرآباد میں موجود ایک اور ملزم ضیا کو بھیجتا تھا، جو پاکستانی کرنسی کو پہلے امریکی ڈالروں میں اور پھر بٹ کوئن میں تبدیل کرکے شام منتقل کرتا تھا۔ اس طریقہ کار کے تحت ملزمان ایک سال کے اندر دس لاکھ ڈالر منتقل کر چکے ہیں۔
سی ٹی ڈی حکام کے مطابق محمد عمر بن خالد کا شام میں جن خواتین سے رابطہ ہوا وہ پاکستانی خواتین ہیں اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے داعش سے منسلک خواتین کی مالی معاونت کے لیے فنڈز اکٹھے کرتی ہیں۔
دوسری جانب ملزم عمر بن خالد کے حوالے سے جاننے کے لیے این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی سے رابطہ کیا گیا، جنہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی کہ 'عمر بن خالد این ای ڈی یونیورسٹی میں مکینیکل انجینیئرنگ کے طالب علم تھے، تاہم سیکنڈ ایئرمیں وہ فیل ہوگئے اور بعدازاں فائنل ایئر میں وہ رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں۔'
جدید دور میں فنڈنگ کے جدید طریقے
بٹ کوئن پر پاکستان میں پابندی ہے، تاہم سی ٹی ڈی کی اس گرفتاری سے پاکستان میں اس جدید ٹیکنالوجی کے شدت پسند سرگرمیوں میں استعمال ہونے کا ثبوت ملا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تجزیہ نگار اور پاکستانی تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’دہشت گردوں کی جانب سے بٹ کوئن کے استعمال سے دہشت گردی میں مالی معاونت کرنا اب کوئی نئی بات نہیں رہی ہے۔ اس سے پہلے القاعدہ اور دیگر شدت پسند گروہ بھی بٹ کوئن استعمال کر رہے ہیں، کیوں کہ یہ ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے اور دنیا بھر میں کہیں بھی آسانی سے کیش کروائی جاسکتی ہے۔ مستقبل میں دہشت گردی میں مالی معاونت کے لیے بٹ کوئن کا استعمال بڑھ سکتا ہے۔‘
عامر رانا کے مطابق کرونا وبا کے دوران ہنڈی اور رقم کی منتقلی کے دیگر طریقوں کے خلاف بڑے پیمانے پر دباؤ آنے کے بعد بٹ کوئن کے استعمال میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
بٹ کوئن، دیگر ڈیجیٹل کرنسیوں کی طرح بنیادی طور پر الیکٹرانک ادائیگی طریقہ ہے، جس کے خلاف پاکستان میں تاحال کوئی بڑی قانونی کارروائی نظر نہیں آئی ہے۔
مئی 2017 میں پاکستان کے مرکزی بینک سٹیٹ بینک نے اس کے استعمال اور خرید اور فروخت کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔