پاکستانی سوشل میڈیا پر دو خواتین کی اپنے ریستوراں کے مینیجر کی انگریزی کا مذاق اٹراتے ہوئے ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ریستوران کا بائیکاٹ کرنے کے مطالبے سامنے آ رہے ہیں۔
وائرل ہونے والی ویڈیو میں دو خواتین جو خود کو عظمیٰ اور دیا کے نام سے تعاراف کرواتی ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ ریستوراں کی مالکن ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ بور ہو رہی تھیں تو اس لیے انہوں نے سوچا ان کے فالوورز کا ان کے ریستوران کے عملے سے تعارف کروایا جائے۔وہ اپنے مینیجر اویس، جو ان کے ساتھ نو سالوں سے کام کر رہا ہے، سے کہتی ہیں کہ وہ اپنا تعارف انگریزی زبان میں کروائے اور وہ جب انگریزی میں بولنے کی کوشش کرتے ہیں تو خواتین ان پر ہنستی رہتی ہیں۔
اس کے بعد عظیٰ نامی خاتون ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ ان کا مینیجر ہے جسے یہ ’اچھی تنخواہ‘ دیتی ہیں اور یہ ایسے بات کرتا ہے۔
اس ویڈیو کے ٹوئٹر پر پوسٹ ہوتے ہی صارفین کی جانب سے ان خواتین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کئی صارفین اس ریستورانت کے بائیکاٹ کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
تاہم انڈپینڈنٹ نے جب اسی ریستوران کے ملازمین سے بات کی تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ریستوران کا ماحول دوستانہ ہے اور یہ ویڈیو گپ شپ کے ماحول میں ریکارڈ کی گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ عملہ خود اس ویڈیو کے وائرل ہونے سے حیران رہ گیا ہے کیوں کہ میڈیا ان سے مسلسل رابطے کی کوشش کر رہا ہے۔
’کیفے کا ماحول کیسا ہے؟‘
سوشل میڈیا پر وڈیو وائرل ہونے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو کی رپورٹر نے جب کیفے کا وزٹ کیا تو دیکھا کہ وڈیومیں دیے گئے تاثر کے برعکس وہاں ویٹر اور عملہ اپنے کام سے مطمئن ہے اور خوشی سے کام کر رہا ہے۔
چونکہ صبح کا وقت تھا اس کیفے میں بھیڑبھاڑ نہیں تھی تاہم عملے کے ارکان حیران تھے کہ معمول کی گپ شپ میں بنائی گئی وڈیو سوشل میڈیا پر کیسے اتنی وائرل ہو گئی۔
بغیر نام بتائے بات چیت کرتے ہوئے عملے نے اظہار خیال کیا کہ صبح سے کوئی 30 فون کالز آ چکی ہیں جووڈیو وائرل ہونے کے بعد کیفے کی مالک کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اتنے سالوں سےیہاں کام کر رہے ہیں خوش ہیں تو کر رہے ہیں اگر کوئی مسئلہ ہوتا تو کہیں اور نوکری کر رہے ہوتے۔
مینجر اویس بھی مطمئن انداز سے اپنی معمول کی ڈیوٹی ادا کر رہے تھے۔ دس سال پہلے اویس اس کیفے میں بطور ویٹر آئے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترقی کر کے مینیجر کے عہدے پر تعینات ہو گئے۔
’کھانا پسند تھا، اب نہیں‘
اس کے باوجود ویڈیو کی وجہ سے خواتین کے اس رویے کی شدید مذمت بھی سامنے آ رہی ہے۔
علی خیام نامی صارف نے ٹوئٹر پر لکھا: ’اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی یہ خواتین اپنے عملے کی عزت نفس کی کوئی فکر نہیں کرتیں۔ مجھے ان کا کھانا پسند تھا لیکن اب مزید نہیں۔‘
How these elites take the dignity of their staff for granted.
— Ali Khayam (@alikhayam_) January 21, 2021
Always loved their food but this has ruined it for good. https://t.co/ilx03TxB3a
ندا رشید نامی صارف کا کہنا تھا: ’غیر ملکی زبان سیکھنا ایک قابل تعریف کوشش ہے، اس کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے۔‘
This is so horrible. The fact that he’s learning a foreign language should be lauded, not laughed at. https://t.co/xHfOSLR0VQ
— Nida Rasheed (@nidarasheed) January 20, 2021
آمنہ چیمہ نامی صارف نے لکھا: ’یہ ثبوت ہے کہ پیسہ آپ کو تمیز اور سلیقہ نہیں سکھا سکتا۔‘
This is just another proof that money can’t buy manners and decency. Disgusting! #BoycottCannoli https://t.co/yiDrH8fful
— Amna Cheema (@amnacheema55) January 20, 2021
صارف مصطفیٰ وسیم نے کہا کہ نو سال سے ان کے ساتھ کام کرنے والے شخص کی عزت کرنی چاہیے۔
Absolutely sick behavior from these women owning #Cannoli restaurant. Please have some empathy of even respecting an employee who has been with you since 9 years. Sad reflection on our society.
— Mustafa Wasim (@MustafaWasim4) January 20, 2021
Life is cruel. Shame on these people #BoycottCannoli https://t.co/gxmaTIgX0Q
صفا اختر نے کہا کہ ایسے ریستوراں کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے جہاں مالکان اپنے ملازمین کے ساتھ عزت سے پیش نہیں آ سکتے۔
We must boycott the restaurant whose owners can’t respect their workers! #BoycottCannoli pic.twitter.com/9Cm6nbZIzF
— Safa Akhtar (@SafaAkhtar99) January 21, 2021