پاکستان کے وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے ایک بہت بڑا چھکا ماراہے اور یہ چھکا انہوں نے اپنے ہی خلاف مارا۔ اور نہ صرف پاکستان کے خلاف بلکہ یقیناً اس ادارے کے خلاف جس کے وہ منسٹر ہیں۔
غلام سرور خان نے جب پچھلے سال جولائی میں پارلیمان میں یہ فرمایا کہ پاکستان میں پائلٹوں کے لائسنسوں پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ لائسنس غلط بھی دیے گئے ہیں، یہ قصور پچھلی حکومت کا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ جب پی آئی اے کے طیارے کا انتہائی افسوسناک حادثہ ہوا اور جب سوالات اٹھائے گئے تو جو عادت ہے ہر حکومت کی اور اس حکومت کی خاص طور پر، پچھلی حکومت کی کمزوریاں بیان کیں اور یہ بتایا گیا کہ کراچی میں ہونے والا جہاز کا حادثہ پچھلی حکومت کی کمزوریوں کی وجہ سے ہوا ہے۔
پھر جب طیارہ حادثے کی رپورٹ سامنے آئی تو یہ رپورٹ میں لکھا تھا کہ پائلٹ کی غلطی تھی، جس طریقے سے وہ لینڈنگ کرنے آ رہے تھے وہ غلط تھا۔ بجائےکہ اس معاملے کی اندرون خانہ انکوائری کی جاتی اور پھر ٹریننگ کو بہتر بنایا جاتا یا اس طرح کے حادثات کی روک تھام کیسے کی جائے، یہ بات کرنے کی تھی لیکن یہ نہیں ہوا۔
سیفٹی سٹینڈرڈ پر نظر ثانی کرتے اندرون خانہ فیصلہ ہوتا کہ پی آئی اے کے حفاظتی انتظامات میں جو بہتری کی ضرورت ہےاس پر کام کیا جاتا ایسا نہیں ہوا تو پھر ہوا کیا؟
ہوا یہ کہ کابینہ میں جب اس پر بات ہوئی تو کہا گیا کہ اس میں پرانی حکومت کی غلطی ہے اور یقیناً اس میں رہی بھی ہو گی کہ سیفٹی کے سٹینڈرڈز اس طرح متعین نہیں ہوئے جس طرح ہونے چاہیے تھے۔ پی آئی اے پر کیوں فوکس زیادہ نہ ہوا؟ جب اس بات کی نشاندہی کی گئی تووزیراعظم سمیت سب نے یہ طے کیا کہ عوام کو بتایا جائے کہ اصل میں اس کا قصور وار کون ہے کس طرح یہ افسوسناک حادثہ پیش آیا۔ اور پھر یہی ہوا کہ وزیر ہوابازی نے جولائی میں پریس کانفرنس کی اور اس میں انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ جو لائسنسز ہیں ان کا مسئلہ ہے۔
وزیر ہوابازی نے پریس کانفرنس کے بعد پارلیمان میں یہ اعلان کیا کہ پائلٹس کے لائسنس بوگس ہیں اس کی انکوائری کی جائے گی اور پائلٹس کو گراؤنڈ کیا جائےگا ۔
ان کے اس بیان کے بعد ہوابازی کی سیفٹی کے بین الاقوامی ادارہ IATA نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ایک پریشان کن چیز ہے کہ اس طرح کا مسئلہ سامنے آیا ہے اور پی آئی اے کی سیفٹی کے حوالے سےبہت سے مسئلے مسائل سامنے آئیں گے۔
جب IATA نے بات کی تو پھر یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (EASA) نے 30 جون کو فیصلہ کیا کہ پی آئی اے کو یورپ میں آپریٹ نہیں کرنے دیں گے اور پی آئی اے کی تمام فلائٹس پر پابندی لگ گئی۔
اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ پاکستان کےاندر بات چیت شروع ہو گئی۔ سول ایوی ایشن کے درمیان اور پی آئی اے کے چیئرمین نے خط و کتابت کی تو حکومت نے کہا کہ ہم اس کوٹھیک کرتے ہیں۔ وزیر ہوابازی نے بہت سے باتیں کیں انہوں نے بھی اعلان کیا کہ ہم حالات بہتر کریں گے۔
پاکستان نے یورپی یونین کے فیصلے کےخلاف اپیل نہیں کی اور اس لیےنہیں کی کیونکہ IATA کی ٹیم پی آئی اے کے سیفٹی کے طریقوں کے آڈٹ کے لئے آرہی تھی۔
ستمبر میں وہ ٹیم آئی بھی لیکن اس کے نتیجے میں کوئی خاطر خواہ فیصلہ نہیں ہوا۔ نہ IATA نے پاکستان کو کلین چٹ دی ہے۔ اس سے بڑھ کر جو یورپی یونین کا فیصلہ دسمبر میں ریویو ہونا تھا تو 26 دسمبر کووزیر ہوابازی نے فرمادیا کہ یورپ ہم پر سے پابندی اٹھا لے گا لیکن 24 گھنٹے کے اندر اندر یورپی یونین کاادارہ EASA اس نے اعلان کردیا کہ ابھی پابندی برقرار رکھی جائے گی۔ ابھی تک یورپی یونین پاکستانی پائلٹس کےسیفٹی کے معاملات سے مطمئن نہیں ہے پاکستان نے تسلی بخش اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔ اور پھر23 جنوری کو UN کی تمام ایجنسیز اور ان سے منسلک تمام اداروں نے طے کیا ہے اور اپنے دنیا بھر میں موجود تمام لوگوں کو بتایا ہے کہ پی آئی اے ہی نہیں پاکستان میں رجسٹرڈ کسی بھی ایئرلائنز کو استعمال نہیں کریں گے۔
یعنی پی آئی اے سمیت پاکستان میں رجسٹرڈ 16 ایئرلائنز سے سفرکرنے سے منع کیا گیا ہے سیرین ، ایئربلیو ، عسکری سمیت تمام ایئرلائنزسے سفر نہ کریں۔ حالات بگڑتے بگڑتے یہاں تک پہنچے ہیں کہ یو این سیکورٹی میجنمنٹ سسٹم نے اعلان کردیا ہے اور اپنے مراسلے میں لکھاہے کہ چونکہ جوسول ایوی ایشن اتھارٹی کے لائسنسز کی تحقیقات ابھی جاری ہیں، مشکوک لائسنس کے معاملات طے نہیں ہوئے ہیں اس لئےپاکستان میں رجسٹرڈ کسی ایئرلائن سے سفر نہ کریں۔ پاکستان کی پوری ایوی ایشن کے حوالے سے معاملہ یہاں آکر کھڑا ہوا ہے۔
یہ معاملات صرف پاکستان کی قومی ایئرلائنز کے ساتھ ہی نہیں بلکہ پاکستان میں رجسٹرڈ تمام ایئرلائنز کے ساتھ ہیں۔ اس کے برعکس دیکھتے ہیں کہ یورپ میں کون کون سی ایئرلائنز ہیں وہ ابھی تک آپریٹ کررہی ہیں، یعنی ان کاسائز دیکھ لیں ان کے سیفٹی کے معاملات دیکھ لیں، ان کے آپریشنز دیکھ لیں کتنے تجربہ کار ہیں، کتنے معاملات ان کے IATA کے مطابق ہیں، چاہےآپ افغان ایئرلائن لے لیں، چاہے تاجک ایئرلائن لے لیں، یہ تمام چھوٹی ایئرلائنز یورپی ممالک میں آپریٹ کررہی ہیں ۔
اگر آپ ان لوگوں سے بات کریں جن کا تعلق ہوابازی سے ہو، چاہےپاکستان میں ہوں یا بڑی بڑی ایئرلائنز جیسے ایمریٹس وغیرہ جن میں پاکستانی پائلٹس کام کرتے ہیں ان سب کے مطابق ہر طرح کی ایئرلائنز یورپی ممالک میں کام کررہی ہیں پی آئی اے کے مقابلے میں کم تجربہ کار ہیں۔ سیفٹی ریکارڈ بھی اچھا نہیں ہیں لیکن وہ کام کررہی ہیں۔ ہمیشہ بہتری کی گنجائش ہوتی ہے۔ یہ تمام ممالک اور پرائیویٹ ادارے جو اپنی ایئرلائنز چلاتے ہیں، بہتری کی طرف جاتے ہیں اور اندرون خانہ اپنے معاملات کو بہتر کرتےہیں۔ اسی وجہ سے ایک قسم کی بہتری کی طرف بھی آپ جارہے ہوتے ہیں اور پردہ بھی ہوتا ہے۔
اگر آپ بیچ بازار میں کھڑے ہو کر خود اپنی برائی اور کمزوریاں بتائیں تو ظاہر ہے IATA اور EASAجیسے جو ایئرلائن سیفٹی کے ادارے ہیں، ان کے پاس کوئی چوائس نہیں ہوتی۔ ان کو یہ لازماً کرنا پڑتاہے جو ای اے ایس اے اور یو این نے کیا کیوںکہ ایئرلائن سیفٹی کامعاملہ انتہائی حساس ہے۔ اس کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اگر ملک ببانگ دہل کھڑے ہوکر کہہ رہا ہے کہ ہمارے اندر یہ کمزوریاں ہیں تو پھر یہ اقدامات تو اٹھانے پڑیں گے، آپ بھلے یہ کہیں کہ ہمیں اپنے آپ کو بہتر کرنا تھا، ہم کس طرح سیفٹی پر سجمھوتہ کرتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیراعظم کے ایک معاون خصوصی نے ہمارے پروگرام میں آکر یہ لائن لی ہے۔ جب ہم نے یہ کہا کہ آپ بہتری لائیں لیکن اس طرح یہ بات چوراہے میں لانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس سے تو تباہی پھیلے گی۔ لیکن انہوں نے بڑی تندہی سے اپنا دفاع کیا۔ جو وزیر ہوابازی نے کیا تھا۔ دفاع کرنا شاید ان کا کام تھا لیکن یہ تواس سے بدتر بات ہے جب 2008 میں اسحاق ڈار وزیر خزانہ بنے تھے اور انہوں نے آتے ہی جب وزارت سنبھالی اور جو پہلی رپورٹ دی اس میں کھل کر کہا کہ فگرزبہت غلط ہیں۔ ہم نے یہ کیا ہم نے وہ کیا ایک طرف لوگ کہہ رہے تھےکہ یہ بہت اچھی بات ہے سچ بولا ہے دوسری جانب بین الاقوامی اداروں کی طرف سے بہت پریشر آگئے تھے کہ آپ کیا کررہے ہیں۔
اس کے بعد پاکستان بہت دباو میں آیا۔ سوال یہ ہے کہ آپ جب حکومت میں ہوتے ہیں اور حکومت چلاتے ہیں تو آپ چیزوں کو بہتری کی طرف لے جاتے ہیں۔ آپ یہ نہیں کرتے کہ آپ چوراہے میں کھڑے ہوکر کہیں کہ آبیل مجھے مار۔ معذرت کے ساتھ وزیرہوابازی نے بالکل یہی کیا ہےاور ان کو سب کی حمایت حاصل ہے۔
خداجانے ہم کب سیکھیں گے، خداجانے فیصلہ سازی کب ایسی ہوگی جس میں اس پر بھی غور کیا جائےگا کہ ہم جو الفاظ بولتے ہیں اس کے اثرات کیا مرتب ہوتے ہیں۔
ہر وقت ایک جنگجو والی ذہنیت کے ساتھ نہ چلیں کہ جو پرانے چلے گئے ان کو کیسےنیچا دکھانا ہے۔ اس وقت جب آپ حکومت میں ہیں تو ملک ، اداروں اوراس کے لوگوں کی تر قی آپ کا اولین فرض ہے۔
یہ کنویں کے مینڈک کی مانند جنگ جس میں دنیا کے حقا ئق سے بے نیازی ناکامی کا زبردست نسخہ ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔