شعیب گنڈاپور محض 40 سال کی عمر میں اب تک آدھی دنیا گھوم چکے ہیں اور مزید سیاحت کا بھرپور ارادہ رکھتے ہیں۔
لندن میں رہنے والے شعیب نے گذشتہ دس، بارہ سالوں میں چھ براعظموں کے 85 ملک دیکھے، جن میں سے صرف چند ایک میں وہ اپنے کام کے غرض سے گئے، باقی میں وہ سالانہ چھٹیوں میں باقاعدہ سیاحت کا منصوبہ بنا کر گھومے پھرے۔
شعیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پیشے کے لحاظ سے تو وہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں مگر سیر و سیاحت ان کا شوق ہے۔ وہ دنیا بھر کے ادب، آرٹ اور ثقافت میں دلچسی رکھتے ہیں، فوٹوگرافی کرتے ہیں اور اپنے سفر ناموں کے علاوہ سیاست و ادب پر مختلف ملکی و غیر ملکی جریدوں اور اخباروں میں بھی لکھتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کا تعلق پاکستان کے ایک پسماندہ ضلعے ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، جہاں سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے اسلام آباد آ گئے۔ ’بچپن میں سوچتا تھا کہ زندگی میں ایک بار ملک سے باہر چلا گیا تو یہ بہت بڑی بات ہو گی مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ میں دنیا گھوموں گا۔‘
شعیب کہتے ہیں کہ اکثر لوگوں کو بیرون ملک سے واپس آنے پر ثقافتی جھٹکا لگتا ہے، مگر ان کا ثقافتی جھٹکا (cultural shock) انہیں ڈیرہ اسماعیل خان سے اسلام آباد آںے کے بعد لگا کیونکہ دونوں شہروں کے رہن سہن میں بہت فرق تھا۔
انہوں نے بتایا کہ 85 ملکوں کی سیاحت کے دوران انہیں کئی جگہوں پر سخت سکیورٹی اور امتیازی سلوک کا سامنا بھی کرنا پڑا، جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان پر شک کیا جاتا ہے کہ وہ اکیلے اور بہت زیادہ سفر کیوں کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ وہ سفر سے کچھ مہینے پہلے منصوبہ بنانا شروع کرتے ہیں کہ کام سے ملنے والی سالانہ چھٹیوں میں کن ملکوں میں جانا ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت ایک کی بجائے چار، پانچ ملکوں، جو ایک دوسرے کے قریب ہوں، گھوم پھر لیں لیکن یہ منحصر ہے کہ انہیں ویزا کس کس ملک کا ملتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’تین سے چار ماہ پہلے سفر کا منصوبہ بنانا ضروری ہے کیونکہ مختلف ملک ویزا لگانے کے لیے مختلف وقت مانگتے ہیں۔‘
شعیب سفر ہلکے پھلکے اندازمیں کرتے ہیں، جس میں ان کے پاس صرف ایک بیگ پیک ہوتا ہے۔ وہ دو سے اڑھائی ہفتے میں سیر کر کے واپس لندن آجاتے ہیں اور معمول کا کام شروع کر دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ ایک برس سے کرونا وبا کے سبب سفری پابندیوں کی وجہ سے وہ صرف لندن اور ڈیرہ اسماعیل خان کے درمیان ہی سفر کر سکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی طبعیت میں اب بے چینی و اضطراب پایا جاتا ہے مگر انہیں امید ہے کہ جلد اس وبا کا خاتمہ ہو گا تاکہ وہ دوبارہ ہواؤں، سڑکوں اور گلیوں کا رخ کریں۔