صدر بائیڈن نے اس ہفتے امریکہ کے 46ویں صدر کا حلف اٹھایا ہے۔ وہ ایسے شخص ہیں جو ذاتی سانحات کا شکار ہو چکے ہیں۔
پہلے وہ 1972 میں اپنی بیوی اور بیٹی سے محروم ہوئے جنہیں حادثہ پیش آیا تھا۔ اس کے بعد اپنے بیٹے بو سے محروم ہو گئے جن کے سر میں رسولی تھی۔ وہ بہت زیادہ دکھ برداشت کر چکے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے وہ میرا درد سمجھیں گے۔ میری زندگی کی آخری دو دہائیاں ایک ڈراؤنا خواب ہیں جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ اور اس میں بدترین بات یہ ہے کہ میرا خاندان بھی اس میں پھنسا ہوا ہے۔
میں یہاں گوانتانامو بے میں بیٹھا یہ لکھ رہا ہوں اور میں صرف یہ امید کر سکتا ہوں کہ صدر میری اور دوسرے قیدیوں کی حالت کا احساس کریں گے جو اس خوفناک قید خانے میں اذیت سے گزر رہے ہیں۔
جب 2002 میں مجھے کراچی سے اغوا کرنے کے بعد پیسوں کے عوض امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کو فروخت کر دیا گیا اور کہانی تراشی گئی کہ میں حسن گل نامی دہشت گرد ہوں تو میری بیوی اور مجھے اسی وقت خوش خبری ملی تھی کہ وہ حاملہ تھیں۔
انہوں نے چند ماہ بعد میرے بیٹے جواد کو جنم دیا۔ مجھے کبھی اپنے بچے سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ صدر بائیڈن ایسے شخص ہیں جو خاندان کی اہمیت کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ سمجھ سکتے ہیں کہ اپنے ہی بیٹے کو کبھی نہ چھو پانا کیسا ہو گا۔ میرا بیٹا جلد 18 سال کا ہو جائے گا اور میں اس کی مدد یا رہنمائی کے لیے موجود نہیں ہوں۔
مجھے اپنے بیٹے کے پورے بچپن کے دوران الزامات اور مقدمے کے بغیر بند رکھا گیا۔ اس دوران صدر نے سینیٹر کی حیثیت مکمل مدت پوری کی۔ وہ آٹھ سال تک امریکہ کے صدر رہے اور صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کیا اور جیت گئے۔ ان کی زندگی کی خواہش پوری ہو گئی۔ میں ایسا کچھ تو نہیں کر سکتا تھا، مگر میں سوال کر سکتا ہوں کہ اگر میرے سال چرائے نہ جاتے تو میں اس دوران کیا کچھ کر چکا ہوتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب بائیڈن نے جنوری2009 میں براک اوباما کے دور میں نائب صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا تو وہ ایک ایسی انتظامیہ کا حصہ بن گئے جس نے گوانتانامو بے کو بند کرنے کا تہیہ کیا تھا۔ اسی ہفتے جاری ہونے والے ایک انتظامی حکم میں وعدہ کیا کہ ’معمول کی کارروائی کے اس معیار اور بنیادی آئینی اقدار کو بحال کیا جائے گا جنہوں نے جنگ کے دوران بھی اس ملک عظیم بنایا۔‘
اوباما نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے دوسرے روز وعدہ کیا کہ ’گٹمو‘ کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے گا۔
میں کانگریس میں پیدا ہونے والی رکاوٹ کے پیش نظر ان منصوبوں پر عمل درآمد میں ان کی ناکامی کا جائزہ لینے یا یہ رائے دینے کے لیے یہاں موجود نہیں ہوں کہ اب گوانتانامو بے کو بند کرنا آسان نہیں ہو گا۔ لیکن مجھے اس بات سے حوصلہ ملتا ہے کہ امریکہ کی قیادت ایک بار پھر ایسے صدر کے پاس ہے جو انصاف اور قانون کی عمل داری پر یقین رکھتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق 2014 میں سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی سی آئی اے کے تشدد کے بارے میں رپورٹ ’ان کی سربراہی میں‘ مکمل کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں میرا ذکر موجود ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ افغانستان میں ’تاریک جیل‘ میں ’بغیر اجازت‘ رکھ کر 540 دن تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ صورت حال بہتر ہے یا زیادہ بری میں اب تک فیصلہ نہیں کر پایا۔
میں تصدیق کر سکتا کہ تشدد ضرور ہوا تھا اگرچہ میں خود گن نہیں سکا کہ کتنے دن ہوا۔ مجھے ڈنڈے سے باندھ کر ایک تاریک گڑھے میں لٹکا دیا گیا۔ میرے کاندھے اپنی جگہ سے نکل گئے جس سے شدید تکلیف ہوئی۔ مجھے شبہ ہے کہ صدر بائیڈن سمجھ پائیں کہ یہ تشدد کس طرح کا ہے۔ دوسرے کمرے میں خاتون کے چیخنے کی آواز سننا اور یہ بتایا جانا کہ یہ آپ کی بیوی ہے اور اگر آپ وہ کچھ نہیں کرتے جس پر وہ اصرار کرتے، تو اس صورت میں انہیں( بیوی کو) ریپ یا قتل کردیں گے۔
اس وقت امریکہ مجھے یہاں رکھنے کے لیے سالانہ 10 لاکھ 38 ہزار ڈالر ادا کر رہا ہے۔ وہ صرف مجھے گھر جانے کی اجازت دے کربہت سی رقم بچا سکتا ہے۔
میں انتقام لینے میں دلچسپی نہیں رکھتا لیکن میں چاہتا ہوں کہ لوگ جانیں کہ میرے ساتھ کیا ہوا اور کس طرح اس پر پردہ ڈال دیا گیا تاکہ ہم بائیڈن کے پیش رو جیسے صدور سے محفوظ رہیں جو پھر کسی کو ایسے ہی سلوک کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ امریکہ کی تاریخ پر تشدد کا دھبہ مٹایا جا سکتا ہے۔ بائیڈن اور ان کی انتظامیہ محض اپنا سر ریت میں نہیں دبا سکتے اور نہ یہ ظاہر کر سکتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا۔
اس وقت امریکہ مجھے یہاں رکھنے کے لیے سالانہ 10 لاکھ 38 ہزار ڈالر ادا کر رہا ہے۔ وہ صرف مجھے گھر جانے کی اجازت دے کر بہت سی رقم بچا سکتا ہے۔ میں محض کراچی کا ٹیکسی ڈرائیور ہوں جو غلط شناخت کا نشانہ بنا۔ سی آئی اے نے اصلی حسن گل کو پکڑ بھی لیا لیکن پوچھ گچھ کے بعد انہیں جانے دیا گیا اور مجھے قید رکھا گیا۔ شاید وہ اپنی غلطی پر پریشان تھے؟
اس ہفتے جب بائیڈن وائٹ ہاؤس میں قیام کریں گے تو ایک شاندار زندگی گزاریں گے۔ میں اوول آفس کا موازنہ یہاں گوانتانامو میں اپنے سیل سے نہیں کرنا چاہتا تاہم مجھے یہ سوچ کر شدید اذیت ہوتی ہے کہ ایک والد یا خاوند کے بغیر میرا خاندان ایسے تکلیف دہ حالات میں رہ رہا ہے۔
نئے صدر خوبصورت دعوتوں میں شرکت کریں گے جب کہ میری بھوک ہڑتال کا ساتواں سال ہے۔ میرا احتجاج اس لیے ہے کہ مجھے مقدمہ چلائے بغیر رکھا گیا ہے۔ جب پہلی بار مجھے کراچی میں پکڑا گیا اس وقت کے مقابلے میں میرا وزن آدھے سے بھی کم ہو گیا ہے۔ جس طرح میرا وزن کم ہو رہا ہے، اگرچہ وہ مجھے زبردستی کھانا کھلاتے ہیں، میں اپنے سیل میں مر جاؤں گا۔
صدر بائیڈن کے پاس کچھ کرنے کا اختیار ہے۔ میرے ساتھ جو تمام ناانصافیاں ہوئی ہیں ظاہر ہے کہ میں انصاف چاہوں گا۔ لیکن سب سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ میں تابوت یا میت کے لیے بنائے گئے بیگ میں گھر نہیں جانا چاہتا۔ میں اپنے خاندان کے پاس گھر جانا چاہتا ہوں اور پہلی بار اپنے بیٹے سے گلے ملنا چاہتا ہوں۔
گوانتانامو کے قیدی نمبر1461احمد ربانی نے یہ تحریر انسانی حقوق کی تنظیمReprieve کے توسط سے ارسال کی ہے۔
© The Independent