سندھ حکومت نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے امریکی صحافی ڈینیئل پرل قتل کیس میں اپیلیں مسترد کرکے احمد عمر سعید شیخ کی فوری رہائی کے حکم پر نظرثانی پٹیشن دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے جمعرات کو ڈینیئل پرل قتل کیس میں سندھ حکومت کی اپیلیں مسترد کرتے ہوئے احمد عمر سعید شیخ کی فوری رہائی کا حکم دیا تھا۔
وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا کے مطابق سندھ حکومت نے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے پراسیکیوٹر جنرل سندھ کو ہدایت کی ہے کہ اس معاملے پر جلد از جلد نظرثانی پٹیشن دائر کی جائے۔
عمر شیخ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے تیار ہیں: امریکہ
اس سے قبل امریکہ نے عمر شیخ کی رہائی پر ’برہمی‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ 2002 میں صحافی ڈینیئل پرل کے قتل میں ’ملوث ایک عسکریت پسند کی پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے رہائی کی توثیق پرشدید برہم ہے۔‘
امریکی حکومت کی سرکاری ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ امریکہ عمر شیخ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے تیار ہے کیونکہ وہ اس کے ایک شہری کے خلاف بھاینک جرائم میں ملوث ہیں۔ بیان کے مطابق ’ہم پرل خاندان کے لیے انصاف کے حصول اور دہشت گردوں کو جوابدہ بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔‘
ادھر امریکی صدر کی چیف ترجمان جین ساکی نے صحافیوں کو بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ ’پاکستانی سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر برہم ہے۔‘
جین ساکی کا یہ بیان نئی امریکی حکومت اور اسلام آباد کے مابین مشکل تعلقات کی عکاسی کرتا ہے جیسا کہ عسکریت پسندی کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان ماضی میں تلخ تعلقات کی ایک تاریخ رہی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے اس فیصلے کو ’دنیا میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے تمام افراد کی توہین‘ قرار دیتے ہوئے پاکستانی حکومت سے ’اپنے قانونی آپشنز پر نظرثانی‘ کرنے کا مطالبہ کیا۔
وائٹ ہاؤس کا ردعمل اس وقت سامنے آیا جب پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک روز قبل ہی سندھ ہائی کورٹ کے احمد عمر سعید شیخ کی رہائی کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا فیصلہ دیا تھا۔ عمر شیخ کو وال سٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا کے لیے بیورو چیف ڈینیئل پرل کے بہیمانہ قتل کا ماسٹر مائنڈ تصور کیا جاتا ہے، جنہیں پہلے اس جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی، تاہم بعد میں ان کی یہ سزا ختم کر دی گئی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وکیل دفاع محمود شیخ نے اے ایف پی کو بتایا: ’عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس مقدمے میں انہوں (شیخ) نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔‘ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ مقدمے میں شامل عمر شیخ کے تین ساتھیوں کو بھی ان کے ساتھ ہی رہا کر دیا جائے حالانکہ یہ واضح نہیں تھا کہ ایسا کب ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پرل 2002 میں عسکریت پسندوں کے بارے میں ایک خبر پر تحقیق کر رہے تھے جب انہیں کراچی سے اغوا کر لیا گیا۔ ایک ماہ بعد ان کی لاش کراچی کے ایک علاقے سے برآمد کی گئی تھی۔
لندن سکول آف اکنامکس سے تعلیم حاصل کرنے والے عمر شیخ کو پرل کے اغوا کے کچھ ہی دن بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے عمر شیخ کو سزائے موت اور دیگر تین ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ نے عمر شیخ کی سزائے موت کو سات سال قید میں تبدیل جب کہ تین ملزمان کو 18 برس بعد رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ حکومت سندھ اور ڈینیئل پرل کے والدین نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
پرل کے خاندان نے جمعرات کو عمر شیخ کی رہائی کے فیصلے کو ’انصاف کے ساتھ مذاق‘ قرار دیتے ہوئے اس معاملے میں امریکی مداخلت کی استدعا کی۔ پرل خاندان نے ایک بیان میں کہا: ’ڈینیئل کے قاتلوں کی رہائی نے دنیا کے تمام صحافیوں اور پاکستانی عوام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ہم امریکی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ناانصافی کے خلاف قانون کے تحت تمام ضروری اقدامات کریں۔‘