بھارت میں کئی ماہ سے جاری کسانوں کے احتجاج پر پہلی بار عوامی طور پر تبصرہ کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ دارالحکومت دہلی کے لال قلعے پر دھاوا بولنے والے کسانوں نے ملک کی ’توہین‘ کی۔
حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے نئے زرعی قوانین کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں بھارتی کسان دو ماہ سے دہلی کے نواحی علاقوں میں احتجاجی کیمپ لگائے ہوئے ہیں جن کا کہنا ہے یہ قوانین کسانوں کی بجائے نجی خریداروں کے لیے فائدہ مند ہیں۔
منگل کو بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقعے پر کسانوں کی ایک ٹریکٹر ریلی نے اس وقت پر تشدد مظاہروں کی صورت اختیار کر لی جب کچھ مظاہرین پہلے سے طے شدہ ریلی کے راستوں سے ہٹ گئے، پولیس کے ساتھ جھڑپیں کی اور تاریخی لال قلعے کی عمارت میں گھس گئے۔
ان پرتشدد مظاہروں یں ایک ہلاک جبکہ سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اتوار کو ایک ریڈیو خطاب میں پہلی بار کسانوں کے احتجاج پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا: ’ دہلی میں 26 جنوری کو ترنگے (بھاری پرچم) کی توہین سے ملک کو بہت دکھ پہنچا۔‘
انہوں نے کہا: ’حکومت زراعت کو جدید بنانے کے لیے پر عزم ہے اور اس کے لیے بہت اقدامات اٹھا کر رہی ہے۔‘
کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ تشدد کے ذمہ دار نہیں تھے جو ان کے بقول ریلی میں شامل ایک اقلیت کے ہاتھوں ہوا۔ حکومت کو اب بھی توقع ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔
ایک حکومتی اجلاس کی سمری کے مطابق مودی نے ہفتے کو حزب اختلاف کے لیڈروں کو بتایا کہ 18 ماہ کے لیے قوانین کو معطل کرنے کی حکومتی پیش کش اب بھی باقی ہے۔
بھارت میں نصف فیصد لیبر فورس زراعت میں کام کرتی ہے۔ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے 15 کروڑ زمین کے مالک کسانوں میں بے چینی مودی حکومت کے سب سے بڑے چلینجوں میں سے ہے۔