'گودی میڈیا واپس جاؤ'، 'گودی میڈیا مردہ باد'، 'گودی میڈیا ہائے ہائے' – یہ وہ نعرے ہیں جو بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کی سرحدوں پر اپنے مطالبات کے حق میں دھرنا دیے بیٹھے کسان اس وقت لگاتے ہیں جب حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حامی نیوز چینلز کے نمائندے دھرنے کی جگہ پر آ کر رپورٹنگ کرتے ہیں۔
نئی دہلی سے متصل سنگھو سرحد پر جاری کسانوں کے سب سے بڑے دھرنے کی جگہ پر جہاں 'گودی میڈیا ناٹ الاؤڈ'، 'گودی میڈیا ڈو ناٹ کور اَس'، 'گودی میڈیا گو بیک'، 'شیم آن نیشنل میڈیا' کے بینرز آویزاں نظر آتے ہیں، وہیں 'ذی نیوز، آج تک، اے بی پی نیوز، نیوز 18، انڈیا ٹی وی اور ری پبلک بھارت' جیسے حکومت کے حامی نیوز چینلز کی 'مفت میں فروخت' کے سیل کاؤنٹر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
احتجاجی کسانوں کا الزام ہے کہ 'گودی میڈیا' بی جے پی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس حد تک جا چکا ہے کہ اپنے جائز مطالبات منوانے کے لیے دھرنے پر بیٹھے کسانوں کو نہ صرف پاکستان اور چین کے ساتھ جوڑ رہا ہے بلکہ 'دہشت گرد، خالصتانی اور اینٹی نیشنل' ہونے کا بھی لیبل چسپاں کر رہا ہے۔
'گودی' ہندی زبان کا لفظ ہے، جس کا اردو ترجمہ 'گود' ہے۔ بھارت میں 'گودی میڈیا' کی اصطلاح ان نیوز چینلز، میڈیا اداروں یا صحافیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو اس وقت برسراقتدار بی جے پی حکومت کو خوش کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی دوڑ میں انتہائی مصروف ہیں۔ 'گودی میڈیا' کو انگریزی میں 'لیپ ڈاگ میڈیا یا لیپ ڈاگ جرنلزم' کہتے ہیں۔
بھارت میں 'گودی میڈیا' کی اصطلاح کو این ڈی ٹی وی کے اینکر اور ایڈیٹر رویش کمار نے تخلیق کیا ہے، جن کا ماننا ہے کہ اس میڈیا کا مقصد حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو 'پاکستانی، چینی اور دیش دروہی' قرار دے کر کچلنا ہے۔
ان کے بقول گذشتہ برس دسمبر میں بھارتی شہریت حاصل کرنے کے قوانین میں تبدیلی کے خلاف شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کو بھی 'گودی میڈیا' نے ہی اپنے چینلز پر گھنٹوں تک چلائے جانے والے مباحثوں اور من گھڑت پروپیگنڈے کے ذریعے کچل دیا تھا۔
'گودی میڈیا کو ایکسپوز کر رہے ہیں'
بھارتی کسان یونین ہریانہ کے ترجمان راکیش کمار بینس نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ 'ہم اب گودی میڈیا کے پروپیگنڈے کا جواب سوشل میڈیا کا استعمال کرکے دے رہے ہیں۔ ہم مطالبات کی منظوری تک ڈٹے رہیں گے اور آخری سانس تک لڑتے رہیں گے۔'
انہوں نے کہا: 'ہم میڈیا کوریج کو مانیٹر کر رہے ہیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کون سا چینل ہماری احتجاجی تحریک کو کس روپ میں دکھا رہا ہے۔ کس چینل کا نامہ نگار کیسا ہے، ہم وہ بھی جان گئے ہیں۔ ہم سوشل میڈیا کا استعمال کر کے گودی میڈیا کو ایکسپوز کر رہے ہیں۔ ان کو جو کرنا ہوتا ہے وہ کرتے ہیں۔ ہمیں جو کرنا ہوتا ہے ہم کرتے ہیں۔'
راکیش بینس نے بتایا کہ بھارت میں اب بیشتر چینل کمپنیاں چلا رہی ہیں اور حکومت میں بیٹھے لوگ ان کمپنیوں کے نمائندے ہیں۔
'ان کمپنیوں کو کسی سے کوئی مطلب نہیں ہوتا ہے۔ وہ اپنا منافع دیکھتی ہیں۔ آج جو کسان احتجاج کر رہے ہیں وہ ملک کو بچانے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ ہمارا احتجاج جن کے خلاف ہے وہ کمپنیاں بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ کمپنیوں کے نمائندے ہیں۔ ان کو ملک کی کوئی فکر یا پروا نہیں ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ جہاں حکومت کمپنیاں بچانے میں لگی ہوئی ہے وہیں ان کمپنیوں کے ٹی وی چینلز وزیر اعظم نریندر مودی کے گن گانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے ہیں۔
'میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے۔ اس میڈیا کو ہر حال میں غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ مکیش امبانی کے اپنے متعدد ٹی وی چینلز چل رہے ہیں۔ یہ چینلز عوام کو گمراہ کرنے کا کوئی بھی موقع نہیں گنواتے۔ ان چینلز کا کام صرف اور صرف نریندر مودی کے ہر غلط صحیح کام کو انتہائی صحیح بتا کر پیش کرنا ہے۔'
تاہم راکیش بینس کے مطابق: 'اب بھی بعض میڈیا ادارے ایسے ہیں جو حقیقت لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ اسی طرح کچھ نامہ نگار بھی ہیں جو حقیقی صورت حال پیش کرنا چاہتے ہیں لیکن جب وہ اپنی فوٹیج اپنے متعلقہ اداروں کو بھیجتے ہیں تو وہاں اس کو انتہائی منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ جب یہ بے ایمانی ہوتی ہے تو نہ صرف ہمیں بلکہ ان نامہ نگاروں کو بھی بہت دکھ ہوتا ہے۔ جب ایسی چیزیں ہوتی ہیں تو ہم 'گودی میڈیا، مودی میڈیا گو بیک' کے نعرے لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔'
ہریانہ سے تعلق رکھنے والے کسان لیڈر تیجویر سنگھ نے نئی دہلی کے مضافات میں واقع شاہ جہاں پور سرحد سے انڈپینڈنٹ اردو کو بھیجے گئے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ کسانوں کی لڑائی ملک کے مستقبل کے لیے ہے جس کو 'گودی میڈیا' کچلنا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا: 'ہم نہیں چاہتے کہ تاریخ میں یہ لکھا جائے کہ جب دیش کے کسان اپنے حقوق کی لڑائی لڑ رہے تھے، اس وقت گودی میڈیا سے وابستہ افراد نے اپنے ضمیر کا سودہ کرکے ایک گندا کھیل کھیلا۔ ہماری لڑائی آپ کے مستقبل کی لڑائی ہے۔ ہم یہاں مرنے کے لیے آئے ہیں۔ یا تو ہم مریں گے یا مودی حکومت کی تاناشاہی ختم ہوگی۔'
تیجویر سنگھ نے بتایا کہ 'گودی میڈیا' اب احتجاجی کسانوں کی کردار کشی کر رہی ہے اور ہم پر خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
'ذی نیوز دکھاتا ہے کہ کسانوں کے دھرنے میں لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ آپ لوگ خود ہی یہاں پر لڑکیاں چھوڑتے ہو اور پھر ان کی ویڈیوز ریکارڈ کرتے ہو۔ ایسا کرنا بند کرو اور اپنے ضمیر کو جگاؤ۔'
انہوں نے مزید کہا: 'گودی میڈیا کے نمائندے جب یہاں آتے ہیں تو اپنے مائیک سے لوگو ہٹا کر آتے ہیں۔ یہ وہ میڈیا ہے جو صرف سرکار اور کارپوریٹ اداروں کے لیے ہی کام کرتا ہے۔ میں گودی میڈیا سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے ضمیر کو جگائیں۔ ہماری لڑائی حق کی لڑائی ہے۔ آپ نے اس کو خالصتانیوں اور اینٹی نیشنل عناصر کا احتجاج بتانے کی بہت سی ناکام کوششیں کی ہیں۔'
'گودی میڈیا نے جمہوریت کا جنازہ نکالا ہے'
بھارت کے جنوبی شہر حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار میر ایوب علی خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ 'گودی میڈیا' کی وجہ سے جمہوریت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ 'گودی کا مطلب گود لینا ہے، یعنی کسی کو گود لے کر پالنا۔ گودی میڈیا سرکار کی گود میں بیٹھا ہے۔ ہم اس کو انگریزی میں لیپ ڈاگ میڈیا بھی کہتے ہیں۔ اس طرح کے میڈیا کی جمہوریت میں ضرورت نہیں ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا: 'گودی میڈیا کی وجہ سے جمہوریت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ عوام کے مسائل کی جو نمائندگی ہونی چاہیے وہ نہیں ہوتی ہے۔ اس کے برعکس حکومت جو چاہتی ہے وہی ہو رہا ہے۔ اگر اس طرح کا میڈیا جنگ آزادی کے وقت ہوتا تو ہم آج آزاد نہیں ہوتے۔'
میر ایوب علی نے بتایا کہ بھارت میں اس وقت اس حوالے سے بات کرنے کی ضرورت ہے کہ ’صحیح صحافت کیا ہے۔ کیا عوام کو جگانا، باخبر کرانا اور مسائل پر بات کرنا صحافت ہے یا ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلانا صحافت ہے۔ اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: 'بھارتی ٹی وی چینلز پر پاکستان کو مسلسل گالیاں دی جا رہی ہیں۔مجھے معلوم ہوا ہے کہ ایک مخصوص چینل پر گذشتہ تین ماہ کے دوران 200 پروگرام ہوئے ہیں، جن میں سے 80 پروگرام پاکستان کے حوالے سے تھے اور ان کے ذریعے پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ رجحان بہت ہی خطرناک ہے۔'