نیٹو کے چار سینیئر عہدیداروں کے مطابق بین الاقوامی افواج امریکہ اور طالبان کے درمیان افغانستان سے انخلا کے معاہدے کی ڈیڈ لائن مکمل ہونے کے باوجود مئی کے بعد بھی جنگ زدہ ملک میں رہیں گی۔
نیٹو کے ایک عہدیدار نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’اپریل کے آخر تک اتحادی فوجوں کی طرف سے افغانستان سے مکمل انخلا نہیں کیا جائے گا۔‘
نیٹو کے اس فیصلے سے طالبان اور اتحادی فوجوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے جو افغانستان سے غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا چاہتے ہیں۔
نیٹو کے عہدیدار نے اس معاملے کی حساسیت کی وجہ سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’(مکمل انخلا کے لیے طالبان کی جانب سے) شرائط کو پورا نہیں کیا گیا ہے اور امریکی نئی انتظامیہ کے ساتھ اس پالیسی میں رد و بدل کیا جائے گا اور جلدبازی میں انخلا کے فیصلے کے مضرات پر روشنی ڈالی جائے گی اور ہم سوچ بچار کے بعد انخلا کی حکمت عملی مرتب کریں گے۔‘
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے گذشتہ سال فروری میں طالبان ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں سکیورٹی کی کچھ ضمانتوں کو پورا کرنے کے بدلے مئی تک تمام غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
صدر ٹرمپ اس معاہدے کی تعریف کرتے رہے ہیں جس میں دو دہائیوں سے جنگ کا سامنا کرنے والی افغان حکومت کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے رواں ماہ تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم کر کے 2500 کردی تھی جو 2001 کے بعد اب تک کی سب سے کم تعداد ہے۔
نیٹو ذرائع کے مطابق اپریل کے بعد کے منصوبوں پر اب غور کیا جارہا ہے اور امکان ہے کہ فروری میں نیٹو کے ہونے والے اجلاس میں اس اہم مسئلے پر بھی غور کیا جائے گا۔
سفارت کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اتحاد کو نظرانداز کرنے کے بعد نیٹو کی افغانستان کے حوالے سے پوزیشن دن بدن اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
تشدد کی کارروائیوں کے دوران افغان حکومت اور طالبان کے مابین بین الافغان امن مذاکرات کا آغاز ستمبر میں دوحہ میں ہوا تھا جو اب تک کسی اہم پیش رفت کے بغیر سست روی سے جاری ہیں۔
نیٹو کی ترجمان اوانا لنجسکو نے اس حوالے سے کہا: ’نیٹو کا کوئی بھی اتحادی ضرورت سے زیادہ طویل عرصے تک افغانستان میں نہیں رہنا چاہتا لیکن ہماری پوزیشن اس بارے میں واضح ہے کہ ہماری موجودگی حالات پر مبنی ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ نیٹو نے (انخلا) کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فروری میں نیٹو کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں فوری فیصلے کا امکان نہیں ہے۔ ’اتحادی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیتے رہیں گے اور آگے کے لائحہ عمل پر مشاورت جاری رکھیں گے۔‘
نیٹو کی ترجمان نے بین الافغان مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نیٹو نے تمام فریقوں سے ’امن کے اس تاریخی موقعے سے فائدہ اٹھانے‘ کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
انہوں نے کہا: ’نیٹو افغانستان کے امن عمل کی مکمل حمایت کرتا ہے تاکہ اس بات کا یقینی بنایا جاسکے کہ افغانستان اب دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں ہے جو ہمارے علاقوں پر حملہ کر سکیں۔‘
ترجمان نے کہا کہ امریکیوں سمیت تقریبا 10،000 اتحادی فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔
نیٹو ذرائع نے بتایا کہ توقع ہے کہ فوجیوں کی تعداد مئی کے بعد بھی تقریبا یہی رہے گی لیکن اس سے آگے کا منصوبہ واضح نہیں ہے۔
کابل اور کچھ غیر ملکی حکومتوں اور ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ طالبان تشدد کو کم کرنے اور القاعدہ جیسے عسکریت پسند گروپوں سے تعلقات منقطع کرنے میں ناکامی کی وجہ سے شرائط کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دوسری جانب طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
20 جنوری کو ٹرمپ کی جگہ لینے والے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے اپنے پیشرو کے امن معاہدے پر نظرثانی کا آغاز کر دیا ہے۔
پینٹاگون کے ترجمان نے کہا کہ طالبان اپنے وعدوں پر پورا نہیں اترے لیکن واشنگٹن امن عمل کے لیے پرعزم ہے تاہم اس نے مستقبل میں فوجیوں کی تعداد کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بائیڈن جنگوں کا خاتمہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور امریکیوں کو دہشت گردی اور دیگر خطرات سے بھی بچانا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب طالبان کے دو ذرائع نے بتایا کہ طالبان کو اس امکان کے بارے میں تشویش ہے کہ واشنگٹن ممکنہ طور پر معاہدے کے نکات کو تبدیل نہ کر دے اور مئی کے بعد ملک میں اپنے فوجیوں کے انخلا کا ارادہ بدل دے۔
دوحہ میں ایک طالبان رہنما نے بتایا: ’ہم نے (امریکہ کو) اپنے خدشات سے آگاہ کر دیا ہے لیکن انہوں نے دوحہ معاہدے کو برقرار رکھنے اور اس پر عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، تصویر اس کے برعکس دکھائی جا رہی ہے اور اسی وجہ سے ہم نے اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کے لیے اپنے وفود بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
اس ہفتے طالبان کے ایک وفد نے ایران اور روس کا دورہ کیا اور طالبان رہنما نے کہا ہے کہ وہ چین سے بھی رابطہ کر رہے ہیں۔
اگرچہ دوحہ میں مذاکرات کاروں کے مابین غیر رسمی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں لیکن مذاکرات کاروں اور سفارتکاروں کے مطابق تقریبا ایک ماہ کے وقفے کے بعد حالیہ ہفتوں میں مذاکرات میں پیشرفت رک گئی ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے روئٹرز کو بتایا کہ وہ امن عمل کے لیے پرعزم ہیں۔
انہوں نے کہا: ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر دوحہ معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہوا تو اس کے (سنگین) نتائج برآمد ہوں گے اور الزام اسی پر ہوگا جو اس معاہدے کا احترام نہیں کرے گا۔ ہماری توقعات یہ بھی ہیں کہ نیٹو اس جنگ کو ختم کرنے کے بارے میں سوچے اور افغانستان میں جنگ کو طول دینے کے لیے مزید بہانے بنانے سے گریز کرے۔‘
دوسری جانب نیٹو اور واشنگٹن کے سامنے یہ چیلنج ہوگا کہ وہ طالبان کو مئی سے بعد غیر ملکی افواج کی ملک میں موجودگی میں توسیع پر راضی کریں۔