’کرپان ہماری مذہبی نشانی ہے اسے کیسے اتار سکتے ہیں‘

پشاور میں سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد سرکاری عمارتوں اور عدالتی احاطے میں داخل ہونے سے پہلے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کرپان اتروائے جانے سے پریشان ہیں۔

’کرپان‘ تلوار نما ایک چھوٹا سا خنجر ہوتا ہے جو سکھوں کی پانچ مذہبی نشانیوں میں سے ایک ہے(تصویر: گورپال سنگھ)

گورپال سنگھ پشاور میں سکھ کمیونٹی کے افراد کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں اور گذشتہ ایک سال سے اس کوشش میں ہیں کہ وہ حکومت کو اس بات پر قائل کریں کہ کسی بھی عمارت میں داخل ہونے کے لیے سکھوں سے ان کا کرپان نہ اتروایا جائے۔

’کرپان‘ تلوار نما ایک چھوٹا سا خنجر ہوتا ہے جو سکھوں کی پانچ مذہبی نشانیوں میں سے ایک ہے اور 15 سال کی عمر کے بعد سکھ مرد و خواتین کرپان کو ہر وقت اپنے پاس رکھتے ہیں اور اسے نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

گورپال سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تقریباً ایک سال پہلے کمیونٹی کے لوگوں نے یہ مسئلہ ان کے سامنے رکھا کہ پشاور میں مختلف مقامات پر جانے سے پہلے سکھوں کو کرپان اتارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے انہوں نے صوبائی پولیس افسران سمیت وزرا سے بھی بات کی ہے، لیکن ابھی تک اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکالا گیا ہے۔

بقول گورپال: ’چند ماہ قبل سپریم کورٹ کے جج  جسٹس گلزار احمد پشاور آئے تھے اور میں نے یہ مسئلہ ان کے سامنے رکھا تھا جس پر انہوں نے مجھے پشاور ہائی کورٹ کے رجسٹرار سے ملنے کو کہا تاکہ اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔‘

گورپال نے گذشتہ برس اکتوبر میں پشاور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے نام لکھی گئی ایک درخواست میں اس مسئلے کی نشاندہی کی تھی اور پھر ان سے ملاقات بھی ہوئی تھی تاہم رجسٹرار کی جانب سے انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ وہ حکومت سے اس پر موقف لیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ’اس کے بعد میں بار بار اس درخواست کے بارے میں پوچھتا رہا، لیکن مجھے اب پتہ چلا کہ صوبائی محکمہ داخلہ نے اس حوالے سے باقی صوبوں کے چیف سیکرٹریز کو نومبر میں ایک خط لکھ کر ان کا موقف مانگا ہے لیکن تاحال اس میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔‘

صوبائی محکمہ داخلہ کی جانب سے نومبر میں باقی صوبوں کے چیف سیکرٹریز کو بھیجے گئے اس خط (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) میں درج ہے کہ اس محکمے کو پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے ایک خط بھیجا گیا، جس میں سکھ کمیونٹی کے افراد کے لیے عدالتی احاطے اور سرکاری عمارتوں میں داخل ہونے پر کرپان اتارنے کی شرط ختم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

اس مراسلے میں لکھا گیا ہے کہ اس حوالے سے اگر باقی صوبوں کے پاس کسی قسم کا قانون یا پالیسی موجود ہے تو اس کو خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ شیئر کیا جائے۔

کرپان نہ اتارنے سے کیا مسئلہ ہوتا ہے؟

گورپال نے بتایا کہ کرپان پہن کر سکھ کسی جگہ داخل نہیں ہو سکتے، جس میں خصوصاً عدالت کے احاطے اور سرکاری عمارتیں شامل ہیں جبکہ سکھ کمیونٹی کے لوگ اگر کسی نوکری یا تعلیمی ادارے کا ٹیسٹ دینا چاہیں تو کرپان کے ساتھ وہ امتحانی حال میں بھی داخل نہیں ہوسکتے۔

انہوں نے بتایا کہ ’اسی وجہ سے بہت سے عدالتی مقدمات میں سکھ فریقین نے مقدمات کی پیروی چھوڑی دی کیونکہ کرپان ہمارے مذہب میں لازمی ہے اور عدالت کے گیٹ پر کرپان اتارنے کا کہا جاتا ہے کیونکہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر عدالتی احاطے میں 14 انچ سے زیادہ کسی قسم کا  نوک دار آلہ لے جانا منع ہے۔‘

’پوری دنیا کے قوانین میں سکھوں کو کرپان پہننے اور ہیلمٹ کے بغیر موٹر سائیکل چلانے کی اجازت ہے کیونکہ پگڑی کی وجہ سے موٹر سائیکل پر ہیلمٹ پہننا سکھوں کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک مذہبی نشانی ہے جو سکھ ہر وقت پہنتے ہیں۔‘

کرپان کہاں بنائے جاتے ہیں؟

گورپال سے جب پوچھا گیا کہ کرپان کہاں بنتے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کرپان نہیں بنائے جاتے بلکہ زیادہ تر جب سکھ لوگ یاترا پر بھارت یا پاکستان میں کسی مذہبی مقام جیسے کہ کرتار پور میں گورونانک کے گردوارے جائیں، تو وہاں سے تحفے کے طور پر لاتے ہیں۔

’جس طرح مسلمان حج کرنے کے بعد اپنے ساتھ باقی لوگوں کے لیے آب زم زم یا کھجور لے کر آتے ہیں، ویسے ہی سکھ لوگ وہاں سے اپنے ساتھ زیادہ تر مواقعوں پر کرپان لے کر آتے ہیں۔‘

حکومت کیا کہتی ہے؟

سکھوں کے تحفظات کے حوالے سے صوبائی مشیر برائے اقلیتی امور وزیر زادہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمیں اندازہ ہے کہ کرپان پہننا سکھوں کی ایک مذہبی نشانی ہے لیکن پاکستان میں سکیورٹی کی وجہ سے سرکاری عمارتوں میں انہیں کرپان کے ساتھ داخلے کی اجازت نہیں دی جارہی۔‘

وزیر زادہ نے بتایا کہ سکھ کمیونٹی کے لوگ پرامن ہیں اور پاکستان کو ان پر فخر ہے اور ان کے اس مطالبے پر حکومتی سطح پر بات چیت ہو رہی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’موجودہ حالات میں یہ (کرپان کے ساتھ عمارتوں میں داخلے کی اجازت) رسک بھی ہو سکتا ہے لیکن چونکہ کرپان ایک مذہبی نشانی ہے تو حکومت اس پر سوچے گی تاکہ اس کے لیے کوئی مناسب حل نکالا جا سکے اور اس سلسلے میں سکیورٹی اداروں کے ساتھ بھی حکومت رابطے میں ہے۔‘

کرپان پہننے کا آغاز کب سے ہوا؟

ورلڈ سکھ نامی تنظیم کی ویب سائٹ پر درج کرپان کے حوالے سے معلومات میں لکھا گیا ہے کہ کرپان بظاہر تو ایک تلوار یا خنجر ہے لیکن سکھ مذہب میں اس کی تعریف ایسے نہیں کی جاتی کیونکہ یہ عام لوگوں کے لیے گمراہ کن ہو جاتا ہے۔ اس رپورٹ میں درج ہے کہ کرپان سکھ مذہب کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے جس کو پہننا ہر سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص پر لازم ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرپان سکھ مذہب میں اتنا ہی اہم ہے جس طرح مسیحیوں کے لیے کراس کا نشان، یہودیوں کے لیے داؤد کا ستارہ اور مسلمانوں کے لیے حجاب۔

سکھ مذہب کے پانچ ارکان کو ’پنچ  ککار‘ کہتے ہیں اور ان کے نام ’ک‘ سے شروع ہوتے ہیں۔ گورپال سنگھ کے مطابق کرپان کے علاوہ باقی چار ارکان میں ’کچ‘ یعنی بغیر کٹے بال، سر پر دستار رکھنا، اپنے پاس لکڑی کا ایک خاص قسم کا کنگھا رکھنا، کلائی میں ’کڑا‘ اور کاٹن کا کچیرا یا انڈر ویئر پہننا شامل ہے۔

اسی ویب سائٹ کے مطابق کرپان کے لیے لازم ہے کہ وہ لوہے یا سٹیل سے بنا ہو اور اس کا سائز چھ سے نو انچ کے درمیان ہو، تاہم سائز ہر کوئی اپنے حساب سے بھی بنا سکتا ہے۔

بریٹانیکا ڈکشنری کے مطابق 1699 میں سکھوں کے دسویں اور آخری  گرو گوبیند سنگھ کے دور میں ’سکھ خالصہ‘ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ خالصہ خالص سے نکلا ہے اور اس کا مطلب پاک ہے۔ اس دور میں ایک پروگرام منعقد کیا گیا تھا، جس میں دس سکھوں کو امن، انصاف اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا سفیر بنایا گیا تھا اور تب سے کرپان پہننے کا آغاز ہوا تھا۔

گورپال نے بتایا کہ ’کرپان اصل میں ظلم  کے خلاف آواز اٹھانے کی ایک نشانی ہے اور اس کی تاریخ بھی یہی ہے کہ کرپان کو ظلم کے خلاف ذاتی حفاظت کے لیے ہمیشہ اٹھانا ہے ناکہ کسی ذاتی مقصد یا فائدےکے لیے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’ملک بھر کے 55 ہزار سے زائد سکھوں میں 35 ہزار سے زائد خیبر پختونخوا کے رہائشی ہیں، لیکن آج تک ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیا کہ کرپان کو کسی جرم میں استعمال کیا گیا ہو۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان