بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حکومت نے موبائل فون پر تیز رفتار فور جی انٹرنیٹ پر عائد پابندی 18 ماہ بعد اٹھالی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں فور جی موبائل انٹرنیٹ پر عائد پابندی اٹھانے کا حکم جمعے کو رات گئے جاری کیا گیا، تاہم کشمیر کے سیکرٹری داخلہ شالین کبرا کی جانب سے جاری ہونے والے حکم میں پولیس حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ’پابندی کے خاتمے کے اثرات پر گہری نظر رکھیں۔‘
ایک جمہوری ملک میں انٹرنیٹ پر عائد طویل ترین پابندی کو انسانی حقوق کے کارکنوں نے ’ڈیجیٹل نسل پرستی‘ اور ’اجتماعی سزا‘ قرار دیا ہے۔ علاقے میں انٹرنیٹ پر اگست 2019 میں پابندی لگائی گئی تھی۔ اس سے قبل بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی اور ریاستی حیثیت کو ختم کردیا تھا، جس کے تحت یہاں کے رہائشیوں کو زمین کی ملکیت اور ملازمتوں میں خصوصی حقوق حاصل تھے۔
بھارتی حکومت کے اقدام کے تحت علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیاگیا تھا، جن کا انتظام مرکزی حکومت کے پاس ہے۔ اس اقدام کے ساتھ ہی وہاں حفاظتی نقطہ نظر کے تحت لاک ڈاؤن نافذ کرکے تمام مواصلاتی رابطے مکمل طور پر کاٹ دیے گئے، جس سے ہزاروں افراد بے روزگار ہو گئے۔
ان فیصلوں سے پہلے ہی سے کمزور صحت کا نظام مزید متاثر ہوا اور سکولوں اور کالجوں میں زیرتعلیم لاکھوں طلبہ کا تدریسی سلسلہ رک گیا۔
تاہم اب کئی ماہ بعد بھارتی حکومت نے کچھ پابندیوں میں آہستہ آہستہ نرمی کر دی ہے جس میں انٹرنیٹ کا استعمال بھی شامل ہے۔ اس سے پہلے گذشتہ برس جنوری میں بھارتی حکام نے اپنے زیر انتظام کشمیر کے ایک کروڑ20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو سست رفتار انٹرنیٹ کے ذریعے حکومت کی منظور کردہ ویب سائٹس تک رسائی کی اجازت دی تھی۔
اس کے دو ماہ بعد حکام نے سوشل میڈیا پر عائد پابندی ختم کرکے انٹرنیٹ کو مکمل طور پر بحال تو کر دیا تھا لیکن تیز رفتار انٹرنیٹ پر پابندی برقرار رکھی گئی۔ اگست 2020 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے 20 اضلاع میں سے دو میں فور جی سروسز بحال کر دی گئی تھیں۔
بھارتی حکام نے کہا ہے کہ انٹرنیٹ پر پابندی کا مقصد بھارت کے خلاف مظاہرے اور باغیوں کے حملے روکنا تھا، جو کئی دہائیوں سے آزادی اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ساتھ الحاق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بھارت اور پاکستان دنوں پورے کشمیر پر دعویٰ کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ اپنے زیر انتظام کشمیر کو بہتر انداز میں بھارت کا حصہ بنانے، وسیع تر معاشی ترقی کے فروغ اور’ قوم دشمن عناصر‘ اور پاکستان کی طرف سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی اقدامات ضروری تھے، تاہم بہت سے کشمیری سمجھتے ہیں کہ بھارتی اقدامات کشمیر میں دوسرے لوگوں کو لا کر انہیں آباد کرنے کے عمل کا آغاز ہے تاکہ بھارت کے واحد مسلم اکثریتی علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کیا جا سکے۔
ڈیجیٹل حقوق کے کارکن انٹرنیٹ پر پابندی کی مسلسل مخالفت کرتے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس پاپندی سے معلومات پر حکومتی کنٹرول کی نئی سطح کا پتہ چلتا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے قانون سازوں نے بھی اس پابندی پر تنقید کرتے ہوئے بھارتی حکومت پر اس کے خاتمے کے لیے زور دیا۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ، جنہیں کئی ماہ پہلے 2019 میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا، نے انٹرنیٹ کی بحالی کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا: ’دیر سے بحالی کبھی نہ بحال ہونے سے بہتر ہے۔‘
دیگر لوگوں نے اس قسم کی رائے پر تنقید کی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ انٹرنیٹ بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ اخبار ’کشمیر ٹائمز ‘ کی ایڈیٹر انورادھا بھاسن کا اپنی ٹویٹ میں کہنا تھا: ’حکومتی عہدے داروں کی جانب سے فور جی کی بحالی پر شکریہ ادا کرنے کو میں حقیقت میں معمول سے ہٹ کر کیا جانے والا عمل سمجھتی ہوں۔ وہ ہمیں خیرات نہیں دے رہے۔ ہمیں محرومی اور نقصان کا معاوضہ طلب کر نا چاہیے۔‘
بھارتی حکومت عسکریت پسندوں کی کارروائیاں اور بھارت مخالف مظاہرے روکنے کے لیے اپنے زیر انتظام کشمیر میں موبائل انٹرنیٹ سروسز اچانک بند کردیتی ہے۔ لندن میں قائم ڈیجیٹل پرائیویسی اور ریسرچ گروپ ’ٹاپ10 وی پی این‘ کے مطابق 2020 میں بھارت انٹرنیٹ سروس بند کرنے والے ملکوں میں سب سے اوپر رہا۔