کبھی چلتے پنکھے میں انگلی دی ہے؟
ڈر لگتا ہے؟ وہ ڈر جو ہے وہ اصل میں آپ کو یاد کرواتا ہے کہ ایسا کوئی تجربہ نہیں کرنا جس سے آپ زخمی ہو جائیں یا دیر تک رہنے والی معذوری ساتھ چمٹ جائے۔ انگلی نہ دینے والی یاداشت کہاں سے بنتی ہے؟ یہ ہمارے بزرگوں کے وہ تجربے ہوتے ہیں جن کے نتیجے میں کچھ حقیقتیں ہم تجربہ کیے بغیر مان لیتے ہیں۔
ان سب کا تعلق جسمانی معاملات سے ہوتا ہے۔ یعنی وہ نتیجے جن تک ہمارے آباواجداد کوئی جسمانی نقصان کروا کے پہنچے ہوں گے، ہمیں وہ تمام سبق مفت میں مل گئے اور ان کی گٹھڑی اٹھا کے ہم نے سر پہ بھی رکھ لی۔
پنکھے میں انگلی دیں گے تو انگلی ٹوٹے گی۔ گاڑی تیز چلائیں گے تو ایکسیڈنٹ ہو سکتا ہے۔ چھت سے نیچے کودیں گے تو ہاتھ پیر تڑوا لیں گے۔ کسی پہاڑ سے پر باندھ کے بھی چھلانگ لگائیں گے تو اڑ نہیں سکیں گے۔ کھیرا کھا کے پانی پیا تو ہیضہ ہو جائے گا، مچھلی پہ دودھ چڑھایا تو برص ہو سکتا ہے اور اسکے علاوہ بہت کچھ۔ حالانکہ یہ آخری دو باتیں کوئی خاص ٹھیک نہیں ہیں لیکن کئی لوگ ان پر آنکھیں بند کر کے یقین کرتے ہیں، کرنا بھی چاہیے، کیا پتہ واقعی انہیں ایسا کچھ کرنے سے ہیضہ یا برص ہو جائے۔ ویسے بھی جو یقین رکھتے ہیں انہیں پھر کچھ ہونے کا چانس بھی زیادہ ہوتا ہے۔
دوسری طرف جو چیزیں فزیکل نہیں ہوتیں، یا جن معاملات میں جسم کو ظاہری چوٹ لگنے کا خطرہ نہیں ہوتا ان میں ہم کئی بار چانس لیتے ہیں۔ جیسے بزرگ کہتے تھے جس کا کام اسی کو ساجھے، اور کرے تو ٹھینگا باجے۔ ہم لوگ اس کے برعکس ہر تجربہ خود کرنے پہ تلے ہوتے ہیں۔
گاڑی کی خرابی سے لے کر گھر کے نہ چلنے والے پنکھے تک میں پہلی کوشش ہماری یہی ہوتی ہے کہ اسے خود ٹھیک کر لیں، بعد میں جب نہیں سمجھ آتی کہ یار کھولتے وقت تو سارے پرزے اسی میں سے نکلے تھے، اب یہ جو بچ گئے ہیں یہ کہاں لگائیں گے، تو ہم مستری کو بلاتے ہیں، وہ ظاہری بات ہے پھر اس حساب سے پیسے لیتا ہے، سو پیاز نالے سو چھتر۔
آج کل دو چیزیں مکمل فیشن میں ہیں۔ روزمرہ زندگی کے سارے کام خود کرنا اور دوسرے ملٹی ٹاسکنگ کرنا، یعنی ایک وقت میں بہت سے کام شروع کر دینا اور اکٹھے سب کو پورا بھی کر لینا۔ ہم سے جو بھی تھوڑی سی بچت کرنا چاہتا ہے، سادہ زندگی گزارنا چاہتا ہے یا “بہادرانہ” طریقے سے “آگے بڑھنا” چاہتا ہے وہ یہ دونوں کام کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔
یاد رکھیے کہ یہ دونوں بالکل الگ چیزیں ہیں۔ ایک، سب کام خود کر لینا، دوسری، ملٹی ٹاسکنگ کرنا۔ یہ دونوں چیزیں اکٹھی اس لیے جوڑیں کیونکہ ایک بات ان میں کامن ہے۔ ہر بندہ یہ دونوں کام نہیں کر سکتا، اس کے لیے کچھ لوگوں میں قدرتی صلاحیت ہوتی ہے، وہ کر لیتے ہیں، زیادہ تر کو مایوسی یا نقصان کے بعد بات سمجھ آتی ہے۔ یہاں میں وہ بزرگ ہوں جو آپ کو پنکھے میں انگلی دینے سے روک رہا ہے۔
زندگی سادہ اب نہیں ہو سکتی، یہ بات یاد رکھیں۔ ہمارے بزرگ اکثر بجلی، پلمبنگ یا لکڑی سے متعلق چھوٹے موٹے کام اس لیے خود کر لیتے تھے چونکہ تب چیزیں دو جمع دو چار ہوتی تھیں۔ نہ ورائٹی تھی اور نہ سائز کے مسئلے زیادہ تھے۔ موٹا سا لکڑی کا بورڈ ہوتا تھا، کالے موٹے گول بٹن، بلب کو دیکھ لیں یار، ساٹھ، نوے، ایک سو بیس واٹ ۔۔۔ یہ تین والے کامن تھے اور ان کی فٹنگ ایک ہی طریقے سے ہوتی تھی۔ فیوز بلب بھی اکثر لوگ ہلا جلا کے دوبارہ لگا لیتے تھے۔
اب کیا ہے؟ ایک تو اب لائٹوں کی بے شمار قسمیں ہیں، انرجی سیور، ایل سی ڈی، ایل ای ڈی، وہ چھوٹے مرچوں جیسے بلب اور پتہ نہیں کیا کیا، پھر وہ سب چائنہ کے ہیں۔ چائنہ کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک بار کی فٹنگ اگلی لاٹ سے سو فیصد میچ نہیں کرتی۔
اگر قسمت سے آپ چوڑی والے انرجی سیور لے آئے ہیں اور آپ کی فٹنگ بھی وہی چوڑی کے ہولڈر والی ہے تب کیا ہو گا کہ بعض اوقات چوڑی فٹ بیٹھے گی نہیں، چھ سات بار گھمائیں گے تو شاید ایک بار کام ہو جائے ورنہ وہی خواری۔ یہی کام پلمبنگ میں پائپ کے سائزوں کا ہے، لکڑی کی قسموں اور چپ بورڈ کی ورائٹیوں کا ہے۔
تو زندگی سادہ نہیں ہو سکتی سوائے یہ کہ جس کا اصل کام ہے اسے کرنے دیں، آپ اپنا کام کریں۔ ایمرجنسی میں سب جائز ہے ورنہ ٹائم تو ضائع ہو گا، خواری اور نقصان مفت میں ساتھ گفٹ ملیں گے۔
اسے یوں بھی سمجھ لیں کہ اگر آپ آٹھ گھنٹے میں ہزار روپے کماتے ہیں تو چار گھنٹے ضائع کر کے پانچ سو بچانے میں فائدہ کوئی نہیں، آپ اپنا کام زیادہ کر لیں، بجلی، پلمبنگ، گاڑی، موٹر سائیکل مکینیکی جن کا دھندا ہے انہیں کرنے دیں۔ کوئی ضرورت نہیں ہیرو گیری کی۔ ہاں چھٹی ہے، بہت ویہلے ہیں، ریٹائرڈ ہیں، یا میرے منہ میں خاک بے روزگاری ہے تو یہ سب اقوال زریں آپ پہ لاگو نہیں ہوتے، کوشش کر لیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اصل میں پنکھے والی مثال اس لیے زور سے آئی ہوئی تھی کہ آٹھ دس سال پہلے میں ایک ایسا ہی کام کر بیٹھا۔ اچھا خاصا مصروف تھا خدا کے فضل سے، ایویں کچھ چیزیں سیکھنے کا پروگرام بن گیا۔ اس کے لیے ملٹی ٹاسکنگ ضروری تھی۔ لسی بن گئی دماغ کی پرتپاک طریقے سے۔ وہ سب یادداشتیں/ تصویریں فیس بک نے اپنی طرف سے میموری بنا کے دکھائیں، میرے زخم ہرے ہو گئے۔ اچھا خاصا تڑکے نکلتا تھا، کام نمٹا کے دوپہر تک واپس آ جاتا۔ کتابیں پڑھتا، پودے اور کبوتر سنبھالتا (جو اب زندگی سے باہر ہو گئے)، مطلب راوی فل ٹائم یاشی کٹتا تھا۔
پھر میں لوگوں سے متاثر ہونا شروع ہو گیا۔ فلاں نے نوکری کے ساتھ پڑھائی کر لی، وہ والی ڈگری لے لی، فلاں کولیگ اپنا کاروبار شروع کر چکا ہے، سامنے کے گھر والا لڑکا تین تین کام کر رہا ہے، رات کو ٹیکسی بھی چلاتا ہے ۔۔۔ یہ ساری چیزیں دماغ پہ اثر ڈالنا شروع ہو گئیں کہ حسنین جمال تو اپنا ٹائم ضائع کر رہا ہے، لو جی داخلہ لے لیا بھائی نے دو کو سال کے ایک ڈگری پروگرام میں۔ اللہ معاف کرے آج تک وہ دن یاد آتے ہیں تو سیلف انسپریشن سے کان پکڑ لیتا ہوں۔
قسم سے بھئی کون سے کبوتر، کہاں کے پودے، چوبیس گھنٹے میں چھتیس گھنٹے والی مصروفیت ہوتی اور کام پھر بھی پورے نہیں ہوتے تھے۔
کورس کی پڑھائی ویسے بھی ایک شدید تکلیف دہ کام رہا ہے اپنے لیے، ساتھ پھر نوکری بھی نبھانی ہوتی تھی۔ پھوڑے بن گئے تھے دماغ میں دو دو انچ کے۔ جیسے تیسے وہ دو سال پورے ہوئے، خواہ مخواہ کی ایک ڈگری لی جو شاید کبھی کام آ جائے لیکن حاصل اصل میں کیا ہوا؟ یہ سبق جو ایک دم مفت کومپنی کی مشہوری کے لیے آپ کو پیش کیا جا رہا ہے۔ “ہر کوئی ہر ایک کام نہیں کر سکتا۔” کر بھی لیں گے تو جتنی رگڑائی ہو گی اس سے بہتر ہے نہ کریں۔ جو کام آتا ہے اس پر توجہ دیں اور بہت سارے چکروں میں ٹانگ مت اڑائیں، مطلب پنکھے کو انگلی سے روکنے کی کوشش مت کریں!
سو باتوں کی ایک بات یہ کہ اگر آپ ویسے ہیں یعنی ہر چیز خود ٹھیک کر لینے والے یا ایک ٹائم میں بہت سے کام کر لینے والے، تو یہ بچپن سے آپ کو پتہ لگ گیا ہو گا۔
جیسے ہر ڈاکٹر بچپن میں اپنے وطن کی خدمت کرنا چاہتا ہے ویسے ہی ہر بچے کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر کیا کیا کر سکتا ہے۔ بڑے ہونے کے بعد اگر آپ نئے سرے سے خود کو بدلنا شروع کریں گے تو وہ بالکل ایسا ہے جیسے چھت سے کودنا، پہاڑ سے پر باندھ کے چھلانگ لگانا، گاڑی تیز چلانا یا کھیرے پر پانی پی لینا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ چوٹ دماغ کو لگے گی، جو کام آتا ہے وہ بھی خراب ہو گا اور حاصل وصول صرف ایک عدد ’سبق‘ ہو گا جو مفت بانٹے جانے کی وجہ سے کوئی مانے گا بھی نہیں۔