ٹریفک کے مسائل سے نمٹنے کے لیے راولپنڈی رنگ روڈ کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے جو 66 کلو میٹر طویل ہوگا۔ یہ روڈ جی ٹی روڈ ریڈیو پاکستان سے شروع ہو کر جی ٹی روڈ سنگ جانی کے پاس ختم ہو گی۔
انتظامیہ کی کوشش ہے کہ اس منصوبے کو ماحول دوست اور پائیدار بنایا جائے جس کے باعث برگد کا ایک سو سالہ پرانہ درخت جو راولپنڈی انٹرچینچ کے سٹارٹنگ پوائنٹ میں آرہا تھا کو محفوظ کرنے کے لیے انجینیئرنگ کا ڈیزائن تبدیل کیا گیا اور گاؤں بگا شیخاں کی اضافی زمین ایکوائر کرنے کے لیے دس کروڑ کی ایڈجسٹمنٹ کی گئی۔
کمشنر راولپنڈی کیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود کا کہنا ہے کہ انہیں خوشی ہے کہ انہوں نے اس درخت کو محفوظ کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس اقدام سے ہماری نوجوان نسل کو ایک پیغام جاتا ہے کہ ماحول کی کتنی اہمیت ہے اور کتنا ضروری ہے۔
’اگر انسان کا ارادہ ہو تو ماحول کو بچانے کے لیے بہت سے ٹیکنیکل، انجینیئرنگ اور فنانشل مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔‘
لیکن دوسری طرف گاؤں بگا شیخاں کے رہائشی اس سے نہ خوش ہیں۔
ملک محمد ندیم جو گاؤں بگا شیخاں راولپنڈی کے رہائشی ہیں کہتے ہیں کہ حکومت سو سالہ پرانے درخت کو تو بچا رہی ہیں لیکن ہمارے آباؤ اجداد کی پانچ سو سال پرانی قبروں کو ملیا میٹ کر رہے ہیں۔
’کیا برگد کا درخت اس سے پہلے انتظامیہ کو نظر نہیں آیا تھا۔ اس کو بچانے کے لیے بڑی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس برگد کے درخت سے پہلے جو ہم یہاں مقیم ہیں اور ہمارے آباؤ اجداد کے مقانات ہیں، زمینیں ہیں، قبریں ہیں، وہ آپ رنگ روڈ میں ملیہ میٹ کر رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں وہ اعلیٰ حکام اور کمشنر راولپنڈی، آر ڈی اے کے چیئرمین کے پاس اپنی فریاد لے کر گئے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
ندیم کا کہنا تھا کہ ان کے باپ دادا نے بھی اس درخت کو اسی طرح دیکھا تھا اور انہوں نے اس درخت کو بچایا ہے۔
’ٹھیک ہےکہ آپ اس درخت کو بچا رہے ہیں مگر اس درخت کو بچانے والے اس کی حفاظت کرنے والوں کی نسلوں کو آپ برباد کر رہے ہیں۔ اس سے بہتر تھا کہ اس کی ہم رکھوالی نہ کرتے۔ اس کو کاٹ دیتے تو آج ہم برباد نہ ہوتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ رنگ روڈ کا اس سے پہلے جو ڈیزائن بنا تھا وہ یہاں سے دو کلومیٹر آگے کا تھا۔ اچانک اس کے ڈیزائن میں تبدیلی کر کے ادھر لایا گیا ہے جو ہماری سمجھ سے باہر ہے۔
وہاں بھی ہماری زمینیں ہیں لیکن وہ غیر آباد ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ متاثرین کو جو معاوضہ اس وقت حکومت کی طرف سے دیا جا رہا ہے وہ ڈیڑھ لاکھ روپے فی کنال ہے حالانکہ جی ٹی روڈ پر دو سے ڈھائی کروڑ روپے فی کنال ہے۔