علی سد پارہ نے اپنے قریبی دوست نثار عباس کو چند روز پہلے کہا تھا کہ اس مہم میں پاکستان کا پرچم ہر صورت کے ٹو پر لہرانا ہے چاہے جان چلی جائے۔
’وہ آج اسی برف کے پہاڑ میں کھو گئے ہیں۔ کے ٹو پر سرچ آپریشن کا تیسرا دن شروع ہو چکا ہے لیکن ہر گزرتا لمحہ زندگی کی رمق کو معدوم کر رہا ہے۔‘ نثار علی کے بچپن کے دوست اور عزیز بھی ہیں۔ انہوں نے علی کے حوالے سے مزید بتایا کہ ’علی غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک اور طبیعتاً بہت سادہ اور مخلص تھے۔‘
دونوں کی چند روز قبل جو گفتگو ہوئی اُس میں علی نے کہا تھا کہ نیپالی کوہ پیماؤں کی جانب سے کے ٹو سر کرنے کے بعد اب ہر حال میں وہاں پاکستان کا پرچم لہرانا ہے، یہ اب بہت ضروری ہے۔ علی اس بات کو لے کربہت جذباتی تھے اور ان کے بیٹے ساجد نے بھی اس بات کی تائید کی کہ پہلی کوشش ناکام ہونے کے بعد بابا بہت جذباتی تھے کہ ہر صورت چوٹی سر کرنی ہے۔
علی کے دوست نثار کو یقین ہیں کہ اگر وہ اکیلے ہوتے تو واپس آ چکے ہوتے کیونکہ وہ بہت سخت جان اور ان پہاڑوں کے تجربہ کار ہیں لیکن جس طرح کی ان کی نرم طبیعت ہے وہ کسی دوسرے کو مصیبت میں چھوڑ کر آنے والے انسان نہیں۔
دو فروری، 1976 کو پیدا ہونے والے علی سکردو کے گاؤں سد پارہ کے قابل فخر بیٹے ہیں۔ انہوں نےکوہ پیمائی کا آغاز بطور پورٹر کیا۔ پورٹر کوہ پیماؤں کے ساتھ اُن کا سامان لے کر جاتے ہیں، راستہ بھی تلاش کرتے ہیں اور ٹریک پر رسیاں بھی لگاتے ہیں۔
علی نے اپنے ایک انٹرویو میں خود بتایا تھا کہ وہ فارغ وقت میں پہاڑوں پر نکل جاتے اور نئے نئے راستے دریافت کرتے تھے۔ اپنی پہلی نوکری کے بارے میں انہوں نے کہا کہ نوے کی دہائی میں پاکستان آرمی کی سیاچن پر موجود پوسٹوں پر سامان پہنچانا ان کے ذمے تھا۔
ابتدا میں سیکنڈ ہینڈ سامان خرید کر شوق پورا کیا
انہوں نے باقاعدہ مہم جوئی کا آغاز 2004 میں کیا۔ علی کے مطابق اُن کے گھر والے چاہتے تھے کہ وہ فوج میں بھرتی ہوں یا پولیس کی نوکری کریں تاکہ انہیں گھر مل سکے اور مستقبل محفوظ ہو جائے لیکن انہوں نے پہاڑوں پہ چڑھنے کو ترجیح دی۔
انہوں نے 2006 میں جب گیشر برم 8000 میٹر تک چڑھائی کی تو اُن کے پاس کوہ پیمائی کا مخصوص لباس و آلات نہیں تھے بلکہ سکردو کی مارکیٹ سے استعمال شدہ سیکنڈ ہینڈ سامان خرید کر انہوں نے اپنا شوق پورا کیا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ پہاڑ جنون مانگتے ہیں، پہاڑ کو سر کرنےکے لیے آپ کی پہاڑوں کے ساتھ دل لگی ہونی چاہیے۔ وہ سردیوں میں نانگا پربت کی چوٹی سر کرنے والے پہلے پاکستانی کوہ پیما ہیں۔
2016 میں نانگا پربت پر علی سد پارہ کے ساتھ جانے والے دو غیر ملکی کوہ پیما ایلکس اور سمون نے کہا تھا کہ اگر علی ساتھ نہ ہوتے تو وہ یہ چوٹی کبھی سر نہ کر سکتے۔
ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں موجود نانگا پربت دنیا کی نویں بلند چوٹی ہے، جس کی بلندی 8126 میٹر ہے۔ علی کو دنیا کی آٹھ ہزار میٹر سے بلند 14چوٹیوں میں سے چھ چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے جبکہ 2019 میں انہوں نے نیپال کے پہاڑی سلسلے میں موجود 8516 میٹر بلند چوٹی لوسے سر کی تھی۔
دو برس قبل انڈپینڈنڈٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں علی نے اپنی مہم جوئی اور درپیش مسائل بتاتے ہوئے کہا تھا کہ کوہ پیمائی ایک مہنگا شوق ہے لیکن یہ اخراجات ایسے پورے ہوتے ہیں کہ جب غیر ملکی کوہ پیما آتے ہیں تو وہ سپانسر لے کر آتے ہیں اور جو سپورٹس کا سامان بنانے والی کمپنیاں ہیں وہ ہمیں سپانسر کرتی ہیں اور ہمارا تمام خرچ برداشت کرتی ہیں۔
علی نے کہا تھا کہ اُن کے گھر والے اکثر پریشان رہتے ہیں کہ وہ سردیوں میں کوہ پیمائی نہ کریں، کہیں کوئی حادثہ پیش نہ آ جائے تو انہوں نے گھر والوں کو تسلی دینے کے لیے کہا کہ گرمی میں برفانی تودے گرنےکا خدشہ زیادہ ہوتا ہے اس لیے سردیوں کی کوہ پیمائی قدرے محفوظ ہوتی ہے۔
علی کے اہل خانہ کہتے ہیں کہ 2019 میں نیپال مکالو چوٹی سر کرنے کے لیے علی کو پاکستان فوج نے مالی معاونت فراہم کی تھی۔ وہ جب کوہ پیمائی نہیں کرتے تو فارمنگ کرتے ہیں۔
چاہتا ہوں کہ بیٹا پڑھ لکھ کر اعلی مقام حاصل کرے: علی سد پارہ
علی کا تعلق جس گاؤں سے ہے اُس علاقے کے زیادہ تر افراد پورٹرز کا کام کرتے ہیں۔ وہاں زیادہ ترافراد کا ذریعہ معاش پورٹر سروس مہیا کرنا اور اس کے عوض کمانا ہے۔
وہ اپنے بیٹے کو کبھی بھی پورٹر نہیں بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ چاہتا ہوں وہ پڑھ لکھ جائے، شوق کے لیے پہاڑ چڑھنا چاہے تو ضرور چڑھے لیکن ذریعہ معاش نہ بنائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف اتنا کمانا چاہتے ہیں کہ اُن کے گھر والوں کی ضرورتیں پوری ہو جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے تین بیٹے اور اور ایک بیٹی ہے۔ اُن کے بچپن کے دوست نثار مزید کہتے ہیں کہ بالکل علی یہی چاہتے تھے کہ بیٹے کو اس شعبے میں نہ لائے لیکن گریجویشن کے بعد بڑا بیٹا ساجد خود باپ کے نقش قدم پہ چلنا چاہتا تھا اس لیے علی کو اجازت دینا پڑی۔
نثار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اور علی ایک ہی گاؤں سے اور رشتہ دار ہیں۔ ’ہم نے ایک ہی سکول اور کالج سے تعلیم حاصل کی۔ علی کے والد کو شوق تھا کہ وہ پڑھیں اس لیے پرائمری کے بعد وہ سکردو منتقل ہو گئے تاکہ اچھے سکول کالج میسر ہوں۔
’علی نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی اور سکردو میں بطور فٹبال کے کھلاڑی مشہور ہو گئے، وہ کالج کی طرف سے کھیلتے تھے لیکن بطور پیشہ انہوں نے کلائمبنگ کو ترجیح دی۔‘
نثار کے مطابق علی کا ایک گلہ رہا کہ وہ تجربہ کار کوہ پیما ہیں لیکن آج تک انہیں اپنے ملک سے وہ پہچان نہیں ملی اور نہ حکومت نے کبھی اُن کی کوہ پیمائی میں سرپرستی کی بلکہ ہمیشہ غیر ملکی مہمات کا حصہ بن کر بلند چوٹیوں پر پاکستان کا پرچم لہرایا۔