آئس لینڈ کے کوہ پیما جان سنوری پاکستانی ساتھی علی سدپارہ اور ان کے صاحبزادے ساجد سدپارہ پر مشتمل تین رکنی ٹیم دنیا کی دوسری اونچی چوٹی کےٹو کے قریب پہنچنے کو ہے۔
ٹیم نے اتوار کو کے ٹو کو بغیر آکسیجن کے سر کرنے کے مقصد سے سفر شروع کیا تھا مگر شدید موسم کے باعث واپس بیس کیمپ پہنچ گئے اور موسم صاف ہونے کے انتظار میں تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ابھی موسم کی خرابی کے باعث سد پارا اور جان سنوری کی ٹیم نیچے بیس کیمپ باخفاظت پہنچ چکی ہے انہوں نے مزید بتایا کہ اب موسم کی صورتحال دیکھتے ہوئے ایک دو دن آرام کیا جائے گا اور نئے پلان کے مطابق انتیس جنوری کو چوٹی کی جانب حتمی چڑھائی شروع کی جائے گی۔
جان سنوری کے ٹریکر کے مطابق وہ اس وقت 5288.06 میٹر کی بلندی پر ہیں۔ سیٹلائٹ فون کے ذریعے بیس کیمپ سے رابطے بحال ہے۔
علی سدپارہ نے پیر کو ٹوئٹر پر اس حوالے سے اپ ڈیٹ دیتے ہوئے لکھا کہ وہ سب خیریت سے ہیں۔
شدید موسم خرابی کے باعث سب ٹیم ممبرز واپس بیس کیمپ پہنچ گئے ہیں ! الحمداللہ ہم سب بلکل خیریت سے ہیں ! ہمیں اپنی دُعاؤں میں یاد رکھیں
— Muhammad Ali Sadpara (@Alisadparaa) January 25, 2021
اتوار کو چوٹی کا رخ کرتے ہوئے علی اور ان کے بیٹے ساجد نے بھی عوام سے دعاؤں کی اپیل کی تھی۔
پاکستانی بہن بھائیوں بزرگوں سے دعاؤں کی اپیل!
— Sajid Ali Sadpara (@SajidAliSadpara) January 24, 2021
میں اور میرے والد صاحب @Alisadparaa آکسیجن سلنڈر کے بغیر اوپر جا رہے ہیں۔ کل 25 جنوری بروز سوموار انشاءالله کے ٹو کی چوٹی پر پاکستانی پرچم لہرائیں گے۔ پاکستان زندہ باد!#K2winter2021
اس مشن سے قبل سدپارہ نے اپنے بیان میں ٹریکنگ کے چند اصول بتائے جن کے مطابق پہلے 24 گھنٹوں کے اندر 2400 میٹرز سے زیادہ بلندی پر نہ جایا جائے۔ 2400 میٹر پر پہنچ کر وہیں ایک رات قیام کیا جائے۔
ماحول سے انسیت کے بعد اگلے مرحلے کا سفر شروع کرنا چاہیے۔ بلندی اور کم آکسیجن کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے ساتھ ساتھ جو چیز سب سے زیادہ فائدہ مند ہے وہ جلد اترائی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی آکسیجن کم محسوس ہو فوراً نیچے اترنا شروع کر دیں اور تین کلو میٹر نیچے اتر کر چھ گھنٹے آرام کریں تو جسم آب و ہوا کے مطابق ڈھل چکا ہو گا۔
علی سدپارہ کے مطابق اس طریقے سے ٹریکنگ میں وقت لگتا ہے لیکن بغیرآکسیجن سلینڈر کے چڑھائی ممکن ہو جاتی ہے۔
الپائن کلب کے قرار حیدری سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے جب رابطہ کیا اور پوچھا کہ بغیر آکسیجن کے آٹھ ہزار فٹ سے زائد بلندی اور منفی 50 ڈگری سیلسیئس میں یہ سب کرنا کتنا مشکل ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ خدا کی طرف سے دین ہوتی ہے۔ ’ابھی تھوڑا موسم خراب ہے، شاید سدپارہ کی ٹیم تھوڑا نیچے آ جائے اور دوبارہ اوپر سفر شروع کریں گے۔ سدپارہ جسمانی طور پر فٹ ہیں اس لیے وہ بغیر آکسیجن کے پہنچ جائیں گے۔‘
قرار حیدری کا کہنا تھا کہ ان کا روزانہ کئی مرتبہ ٹیم سے رابطہ ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیم کے پاس سیٹلائٹ انٹرنیٹ موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ ایک اور ٹیم بھی کے ٹو سر کرنے کے لیے بیس کیمپ میں موجود ہے لیکن وہ سازگار موسم کا انتظار کر رہے ہیں۔
کیا اسے زندگی کو مشکل میں ڈالنا نہیں کہیں گے؟ اس کے جواب میں قرار حیدری نے کہا کہ موسم سرما میں بغیر آکسیجن کے ٹو سر کرنا یقیناً بہت مشکل ہے لیکن مکمل حکمت عملی اگر اپنائی جائے تواس کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
اس سے قبل کتنی ٹیمیں بغیر آکسیجن کے خصوصاً موسم سرما میں کے ٹو سر کرچکی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ موسم گرما میں تو ہر ٹیم بغیر آکسیجن کے کے ٹو پر پہنچتی ہے لیکن مسئلہ موسم سرما کا ہوتا ہے۔ جب منفی درجہ حرارت اور 150 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار کی ہواؤں سے سامنا ہوتا ہے تو ہوا میں آکسیجن کی مقدار بہت کم ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ علی سدپارہ اور ساجد سدپارہ پہلے پاکستانی کوہ پیما ہوں گے جو موسم سرما میں کے ٹو بغیر آکسیجن کے سر کریں گے۔ جبکہ ساجد سدپارہ پہلے کم عمر پاکستانی کوہ پیما ہوں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گذشتہ دنوں چوٹی سر کرنے والی نیپالی ٹیم میں نرمل پرجا نے بغیر آکسیجن کے ٹو سر کی ہے جبکہ ان کی باقی ٹیم آکسیجن استعمال کر رہی تھی۔
سعدیہ مقبول جو نوجوان کوہ پیما ہیں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ علی سدپارہ کے ساتھ حال ہی میں انہوں نے چترال میں موجود زانی پاس ٹریک کیا جس کی بلندی 3480 میٹر ہے۔ انہوں نے کہا کہ سردیوں میں آکسیجن کے بغیر بلندی پہ جانا یقیناً بہت مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں اور جتنا علی سد پارہ کا تجربہ ہے وہ اس مہم کو بخوبی مکمل کر لیں گے۔
محمد علی سد پارہ نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے بیان جاری کیا تھا کہ وہ اور ان کے بیٹے ہہفتے کو رات نو بجے بیس کیمپ سے بغیر آکسیجن کے روانہ ہوں۔ انہوں نے دعاؤں کی درخواست بھی کی۔
ان کا پلان تھا کہ وہ ہفتے کی شام بیس کیمپ سے نکل کر اتوار کو دوپہر 12 بجے تک ٹو کے آخری ٹریک سی تھری پہنچ جائیں، پھر وہاں تھوڑا آرام کرنے کے بعد وہاں سے نکل جائیں تاکہ پیر کی صبح نو بجے تک چوٹی سر کر لیں۔
The plan is to leave BC at 9pm local time tonight, arrive to C3 on Sunday by noon, rest and push for summit at 6pm. Aiming for the summit at 9am Monday.
— Muhammad Ali Sadpara (@ali_sadpara) January 23, 2021
It's a very ambitious plan, and conditions are not easy, but we are positive and ready for it. #K2winter2021 #Pakistan
تاہم خراب موسم کے باعث ان کو پیر کو بیس کیمپ واپس آنا پڑا اور اب موسم کے صاف ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اپنے مشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے علی سدپارہ نے بتایا کہ ان کے 20 سالہ صاحبزادے ساجد گذشتہ سات سالوں سے ان کے ساتھ پہاڑی سفر میں ہیں اور وہ پاکستان کے پہلے کم عُمر کوہ پیما ہوں گے جو بغیر آکسیجن کے ٹو پر پہنچیں گے۔
میرابیٹا @SajidAliSadpara پچھلے 7 سالوں سے میرے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر پاکستانی کی دیگر کوہ پیما کو سر کرنے میں کامیاب رہا -کل کا سورج انشاءاللہ ساجد علی پاکستان کا نام دُنیا بھر میں روشن کریں گا جو بغیر آکسیجن کے20 سالہ کی عمر میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والا پہلا کوہ پیما ہوگا pic.twitter.com/NsiEQLfD2h
— Muhammad Ali Sadpara (@Alisadparaa) January 24, 2021
کے ٹو پر جانے کے لیے کیا کیا لوازمات درکار ہوتے ہیں؟
قرار حیدری نے اس سوال کے جواب میں بتایا کہ ایک غیر ملکی کوہ پیما کا تیس لاکھ خرچہ ہوتا ہے جبکہ ایک پاکستان کوہ پیما کا 15 سے 20 لاکھ روپے خرچہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دو لاکھ روپے کی تو صرف کِٹ ملتی ہے جو خصوصی لباس اور جوتوں پر مشتمل ہوتی ہے، ایک بیگ ہوتا ہے جس میں ہائیکنگ سٹکس، پیڈز، رسیاں اور دیگر چھوٹی چھوٹی اشیا ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ سات ہزار ڈالرز رائلٹی کی مد میں جمع کروانے ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بیس کیمپس کے علاقوں میں بھی منفی 20 ڈگری درجہ حرارت ہوتا ہے لیکن وہاں موجود کیمپس کے اندر ہیٹنگ سسٹم بھرپور ہوتا ہے اور سہولیات سے بھرپور پرتعیش کیمپس ہوتے ہیں۔ اور یہ سب سروسز اسی خرچے میں مہیا کی جاتی ہیں۔
سدپارہ کون ہیں؟
علی سدپارہ گلگت بلتستان کے علاقے سکردو کے چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ بہتر ٹریننگ کے مواقع نہ ہونے کے باعث علی سدپارہ نے پہاڑوں کو سر کرنے کا شوق بطور پورٹر شروع کیا۔ اور سند یافتہ کوہ پیما ٹیموں کے ساتھ سفر کیا لیکن صرف ان کا سامان لے کر آخری بیس کیمپ تک جاتے اور واپس آجاتے۔
اس کے بعد انہوں نے اپنا سفر شروع کیا اور کئی نامور چوٹیوں کو سر کیا۔ انہوں نے سال 2019 میں نیپال میں واقع 8485 میٹر کی دنیا کی پانچویں بلند ترین چوٹی کو سر کیا تھا۔ وہ پہلے پاکستانی کوہ پیما ہیں جنہوں نے دنیا میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند سات پہاڑی چوٹیوں کو سر کیا ہے۔
گذشتہ برس دسمبر سے شروع ہونے والا یہ سفر اب اختتام کے قریب ہ۔ موسم سرما میں کے ٹو کو سرکرنے کے لیے تشکیل دی جانے والی کوہ پیماؤں کی ٹیموں میں یہ تیسری ٹیم ہے۔ اس سے قبل نیپالی دس رکنی ٹیم کے ٹو پر پہنچ کر واپس آ چکی ہے۔
کے ٹو کی چوٹی 8611 میٹر کی بلندی کے ساتھ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے جس کو ’سیویج ماؤنٹین‘ کے نام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔