بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ (را) کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دُلت کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات پر بہت افسوس ہے کہ انٹر سروسز انٹیلیجنس یا آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کے ساتھ اپنے ملک پاکستان میں اچھا سلوک نہیں ہوا ہے۔
ان کے بقول پہلی بار دو ملکوں کے انٹیلیجنس افسروں نے مل کر کتاب لکھی ہے اور وہ خوش قسمت ہیں کہ بھارت میں جمہوریت ہونے کی وجہ سے انہیں جنرل اسد درانی جیسی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔
'را' کے سابق سربراہ نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ 'برائٹر کشمیر' کے مدیر اعلیٰ فاروق احمد وانی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یہ باتیں کہی ہیں۔
واضح رہے کہ امرجیت سنگھ دُلت کی بجائے اے ایس دُلت کے نام سے مشہور سابق 'را' چیف اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے 'دا سپائی کرانیکلز: را آئی ایس آئی اینڈ دا الیوژن آف پیس' نامی کتاب مل کر لکھی ہے۔
پاکستان کی وزارت دفاع کا ماننا ہے کہ متذکرہ کتاب کے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں قومی سلامتی سے متعلق مواد موجود ہے اور کتاب کا متن آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کی بعض شقوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
وزارت دفاع نے رواں برس 23 جنوری کو اسد درانی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے بارے میں دائر درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں جواب جمع کرا دیا جس میں ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مخالفت کی گئی۔
وزارت دفاع کے جواب میں کہا گیا تھا: 'اسد درانی 2008 سے دشمن عناصر بالخصوص بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' سے رابطوں میں رہے، انہوں نے ایسی سرگرمیوں سے باز رہنے کا بیان حلفی بھی جمع کرایا لیکن تاحال اس پر عمل درآمد نہیں کیا، اس لیے اسد درانی کا نام ای سی ایل میں شامل کرنا بدنیتی پر مبنی نہیں ہے۔'
اس میں مزید کہا گیا تھا: 'اسد درانی 32 سال تک پاکستانی فوج کا حصہ رہے اور اہم اور حساس عہدوں پر تعینات رہے ہیں، اس لیے ان پر سفری پابندی ضروری امر ہے۔'
جب 'برائٹر کشمیر' کے مدیر اعلیٰ نے اے ایس دُلت سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہوا کہ پاکستان میں اسد درانی کو کارروائی کا سامنا کرنا پڑا اور آپ کے خلاف ایسی کوئی کارروائی نہیں ہوئی تو ان کا کہنا تھا: 'میری خوش قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں (بھارت میں) جمہوریت ہے۔
'میں نے کوئی غلطی نہیں کی ہے۔ میں پہلا بھارتی نہیں ہوں جس نے کسی پاکستانی کے ساتھ مل کر کتاب لکھی ہو۔ پہلے بھی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مگر یہ بات ہے کہ پہلی بار انٹیلیجنس افسروں نے مل کر کتاب لکھی ہے'۔
دُلت نے کہا کہ میرا اور اسد درانی کا مل کر کتاب لکھنے کا مقصد یہ بتانا تھا کہ بھارت اور پاکستان کو مل کر آگے چلنے کی ضرورت ہے۔
'یہ کتاب لکھنے کا آئیڈیا یہی تھا کہ بھارت اور پاکستان کو مل کر چلنا چاہیے، آگے چلنے کی ضرورت بھی ہے۔ جنرل صاحب (اسد درانی) اور میری سوچ یہی تھی کہ کتاب منظر عام پر آنے کے بعد شاید کوئی ہماری سوچ کے ساتھ اتفاق کرے گا اور لوگ آگے چلنے کے لیے تیار ہوں گے۔
'جنرل صاحب (اسد درانی) کا عزم ہے کہ بھارت کے ساتھ بات چیت ہونی چاہیے۔ میں بھی یہی سوچتا ہوں۔ وہ مجھ سے ہمیشہ کہتے ہیں کہ تم دائمی امید پرست ہو اور میں حقیقت پسند ہوں۔ ہم دونوں کی رائے ایک جیسی ہے۔ جو اُن کے ساتھ پاکستان میں ہوا اُس پر مجھے بہت افسوس ہوتا ہے۔'
'عمران خان کرپٹ نہیں'
اے ایس دُلت نے کہا کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کبھی بھی کرپشن کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں اور میں سمجھتا تھا کہ ان کی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جوڑی دونوں ملکوں کے لیے اچھی ثابت ہوگی۔
'میں سمجھتا تھا کہ عمران خان اور جنرل باجوہ کی جوڑی پاکستان اور ہمارے لیے بہت اچھی ثابت ہوگی۔ پاکستان میں کوئی سیاسی لیڈر اقتدار پر زیادہ دیر تک ٹکتا نہیں ہے۔ خان صاحب کو نوجوانوں کا بہت سپورٹ حاصل تھا۔
'ایک بات جو سب مانتے ہیں وہ یہ ہے کہ خان صاحب نے کبھی بھی کرپشن میں حصہ نہیں لیا ہے۔ باجوہ صاحب کے بارے میں بھی لوگ کہتے ہیں کہ وہ سمجھدار ہیں اور بھارت کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں۔ اگر اتنی اچھی جوڑی ہے تو یہ آگے چلنے کا ایک موقع فراہم کرتی ہے۔'
بھارت – پاکستان بات چیت کی وکالت
'را' کے سابق سربراہ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان بنیادی مسئلہ کشمیر ہے تو بات چیت کی شروعات اسی مسئلے سے ہونی چاہیے۔
'یہ بات میں بیسوں بار کہہ چکا ہوں کہ بھارت اور پاکستان کی بات چیت کبھی رکنی نہیں چاہیے۔ ہمیں رشتوں کی مضبوطی کے لیے کام کرنا چاہیے اور ہمیشہ ایک دوسرے سے بات کرتے رہنا چاہیے۔ اگر بنیادی مسئلہ کشمیر ہے تو ہم کشمیر کو ہی ٹھیک کیوں نہ کریں۔ وہیں سے شروعات ہو۔
دُلت نے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے حالیہ بیان کو سراہتے ہوئے کہا: 'دو تین دن پہلے پاکستان کے آرمی چیف نے ایک بڑا اچھا بیان دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم امن اور بات چیت چاہتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں۔ اگر مل کر چلنا چاہتے ہیں تو ملنے کی بات کی جائے۔
'بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان کشمیر میں زیادہ دخل دیتا ہے، عسکریت پسندی کو فروغ دیتا ہے، دراندازی کراتا ہے اور کنٹرول لائن پر گولیاں چلاتا ہے۔ ان سبھی چیزوں کو بیٹھ کر سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔'
'جب بات چیت شروع ہوگی تو کئی چیزیں حل ہو سکتی ہیں۔ دخل اندازی اور عسکریت پسندی سے کشمیر میں بربادی ہوئی ہے۔ پاکستان کو بھی سوچنا چاہیے کہ کب تک آپ نے کشمیر کو برباد کرنا ہے۔'
اے ایس دُلت نے کہا کہ جب بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت ہوتی ہے تو کشمیری خوش ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اب ان کو کوئی راحت ملے گی۔
'سرحدوں پر کبھی کبھی تناؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے گولیاں بھی چلتی ہیں۔ میں پاکستانیوں کے لیے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ بار بار کہتے ہیں کہ چین کے ساتھ ہمارا خصوصی رشتہ ہے۔ چین ہمارا ہمہ موسمی دوست ہے۔'
'میں کہتا ہوں کہ وہ رشتہ بھارت اور پاکستان کا ہونا چاہیے۔ اس میں اگر چین شامل ہوتا ہے تو بہت اچھا ہے۔ لیکن ہمہ موسمی اور خصوصی رشتہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونا چاہیے۔'
'اب جنگ کی کوئی بات نہیں کرتا ہے۔ دونوں ملکوں میں لوگ سمجھتے ہیں کہ جنگ تو پاگل پن ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اگر بات چیت کی شروعات کرنی ہے تو خان صاحب دہلی آئیں۔'
سابق 'را' چیف نے کشمیر کو سیاسی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اسے پانچ اگست 2019 کو چھینا گیا ریاستی درجہ واپس دینے کی بھی وکالت کی۔
'کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ کشمیر اور دہلی کی لیڈرشپ کے درمیان بھی بات چیت ہونی چاہیے اور ہوتی رہنی چاہیے۔ اس بات چیت کے ذریعے کشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی کا راستہ نکل آئے گا۔ آخر کار کشمیر میں تو الیکشن بھی ہونے ہیں کبھی نہ کبھی۔'
'پاکستان کا اقوام متحدہ جانا فضول'
اے ایس دُلت کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں اٹھانا ایک فضول مشق ہے۔ ان کے بقول اس کے برعکس وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعظم بھارت کو آپس میں بات کرنی چاہیے۔
'1972 میں ہونے والے شملہ سمٹ میں بھٹو صاحب (ذوالفقار علی بھٹو) اور اندرا گاندھی کے درمیان طے پایا تھا کہ کشمیر پر جب بھی بات چیت ہوگی تو وہ دوطرفہ ہوگی۔ یعنی بھارت اور پاکستان کے درمیان ہوگی۔ شملہ معاہدے کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ جانے سے کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ خان صاحب نے اقوام متحدہ میں معاملہ اٹھایا ہے لیکن پاکستان کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ہے۔
'پاکستان میں پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔ میں اس موقع پر پاکستانی وزیر اعظم کا بیان دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے شروعات بڑی اچھی کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھارت ایک قدم آگے چلے گا تو ہم دو قدم چلیں گے۔ اس کے بعد وہ واپس اقوام متحدہ کی قراردوں پر آ گئے۔
'پاکستان جب اقوام متحدہ کی قراردوں کی بات کرتا ہے تو اس کو کشمیری بھی مذاق سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان سنجیدہ نہیں ہے۔ جو چیز نہیں ہو سکتی ہے اُن پر بات کرنے کا کیا فائدہ ہے۔ میرا ماننا ہے کہ پاکستان کا اقوام متحدہ جانا ایک فضول مشق ہے۔ بات تو خان صاحب اور مودی جی کے درمیان ہونی چاہیے۔'
کلبھوشن یادھو کا معاملہ
اے ایس دُلت نے پاکستانی جیل میں قید مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادھو کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اعتماد سازی کے اقدامات کے تحت انہیں رہا کرنا چاہیے۔
'وہ جاسوس ہے یا نہیں یہ مسئلہ نہیں ہے۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ ہماری طرف سے کوئی اُدھر چلا گیا تو پکڑا گیا، اُدھر سے کوئی یہاں آیا تو پکڑا گیا۔ اس کو اتنی پبلسٹی دینے کی ضرورت نہیں تھی۔
'یہ آپس میں بات شروع کرنے کا ایک اچھا موقع تھا۔ وہاں سے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ہمارے این ایس اے کو فون کرتے کہ ہمارے پاس آپ کا بندہ ہے، وہ ایسی ایسی بات کر رہا ہے، کوئی راستہ ڈھونڈیں گے اس کو چھوڑنے کا۔'
'ملکوں کے درمیان ایسی باتیں ہوتی ہیں۔ پکڑ کر پبلسٹی کرنا کہ ہم نے پکڑ لیا یہ کوئی بہادری نہیں ہے۔ جب اعتماد سازی کے اقدامات اٹھانے ہوں تو چھوڑ دیں یادھو صاحب کو اور آنے دیں گھر واپس۔'
'دفعہ 370 کے خاتمے سے کشمیر میں مایوسی'
سابق 'را' چیف نے کہا کہ بھارت کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے بلکہ اس سے کشمیر میں مایوسی اور ناراضگی پیدا ہوئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
'بھارت کو کوئی خاص فائدہ نہیں ملا کیونکہ دفعہ 370 میں کچھ خاص بچا نہیں تھا، یہ دفعہ کھوکھلی ہو چکی تھی۔ بی جے پی کا ایجنڈا تھا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا ہے، انہوں نے اپنا ایجنڈا پورا کیا۔
'اس کی منسوخی سے کشمیر میں مایوسی آئی ہے۔ کشمیری سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ ٹھیک نہیں ہوا ہے۔ وہ اس کو ایک قسم کی غداری مانتے ہیں۔ کشمیر میں دفعہ 370 کی منسوخی سے کوئی خوش نہیں ہے۔ کچھ لوگوں میں ناراضگی ہے لیکن زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جو مایوس ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ ہمارے ساتھ یہ کیا ہوا ہے۔
'بھارت نواز سیاسی جماعتوں سے جڑے لوگ زیادہ ہی پریشان ہیں۔ لوگوں کو بند کیا گیا تھا اس پر بھی ناراضگی ہے۔ اگر دفعہ 370 ہٹانی تھی تو اس کے دوسرے طریقے بھی تھے۔ یہ کام مقامی اسمبلی یا لوگوں کو اعتماد میں لے کر بھی کیا جا سکتا تھا۔'
'حریت کانفرنس کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں'
اے ایس دُلت نے کہا کہ کشمیر میں استصواب رائے کرانے کا مطالبہ کرنے والی تنظیموں بالخصوص حریت کانفرنس کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہے اور وہ پاکستان سے ہدایات لیتی ہیں۔
'موقعوں کوگنوانا نہیں چاہیے۔ میں حریت کانفرنس کی بات کروں تو ان کو 2000 سے 2004 تک آگے چلنے کے کئی موقعے ملے۔ لیکں وہ وہیں پھنسے رہے جہاں پھنسے تھے۔ ایڈوانی جی (ایل کے ایڈوانی) نے جب حریت قائدین سے پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں اور کیا کوئی روڈ میپ ہے آپ کے پاس۔ مجھے یاد ہے کہ پروفیسر غنی (پروفیسر عبدالغنی بٹ) نے کہا کہ ہم روڈ میپ بنا رہے ہیں۔
'میں سمجھتا ہوں کہ وہ روڈ میپ آج تک بنا نہیں ہے اور نہ وہ بنے گا۔ کشمیریوں کے پاس کوئی کلیئرٹی نہیں ہے۔ اب 2004 پر واپس جانا مشکل ہے۔ ہم 2021 میں ہیں۔ پروفیسر غنی نے ایک کتاب لکھی تھی۔ جب اس کتاب کو سری نگر میں لانچ کیا گیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ وقت آ گیا ہے کہ مین سٹریم (بھارت نواز سیاسی جماعتیں) اور علیحدگی پسند ایک ہی میز پر بیٹھ کر بات کریں۔ لیکن وہ ہوا نہیں۔ وہ ہوا نہ روڈ میپ بنا۔
'وہ زیادہ تر ہدایات پار (پاکستان) سے لے رہے تھے۔ وہ پار کی ہدایات کی وجہ سے ڈرتے تھے۔ اس لیے بات آگے چل نہیں پائی۔ جب بھی کوئی بات ہوتی تھی تو وہ کہتے تھے کہ پہلے پاکستان سے بات کر لیجئے، آپ بھی کر لیجئے ہم بھی کریں گے۔ میں نے پاکستانیوں کو بھی کئی بار کہا کہ آپ جو حریت کو روکتے ہو وہ کشمیر کے مفاد میں نہیں ہے۔'
سابق 'را' چیف نے کہا کہ حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے سربراہ میرواعظ مولوی عمر فاروق کو باہر نکل کر سیاست کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا: 'آج پھر ایک موقع ہے آگے چلنے کا۔ میں خاص طور پر میرواعظ صاحب سے کہوں گا کہ ان کو باہر نکل کر سیاست کرنی چاہیے۔ وہ مذہبی رہنما ہیں ہی لیکن اگر سیاست کرنی ہے تو باہر نکلنا ہی چاہیے۔ میں ہمیشہ سے ہی اس کے حق میں رہا ہوں کہ حریت کانفرنس سیاست کرے۔
'میرواعظ صاحب کا رول بنتا ہے۔ دیگر علیحدگی پسند قائدین جن کا مین سٹریم کی طرف جھکاؤ ہے اُن کو بھی مین سٹریم کے ساتھ مل کر آگے چلنا چاہیے۔ پاکستان کو بھی اس کوشش کی حمایت کرنی چاہیے۔'
دوسری جانب پاکستان میں انڈپینڈنٹ اردو کے نمائندے عبداللہ جان کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالے جانے سے متعلق درخواست کی سماعت سننے سے انکار کر دیا ہے۔
جمعے کو درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس محسن نے کہا کہ وہ مقدمے کا پس منظر جانتے ہیں، تاہم بعض ایسے حالات ہیں جن کی بنا پر وہ یہ مقدمہ مزید نہیں سن سکتے۔ انہوں نے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو مقدمے کی سماعت کے لیے نیا بنچ تشکیل دینے کیا استدعا کر دی۔