اسد درانی بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے رابطوں میں رہے: وزارت دفاع

 وزارت دفاع نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائےگئے جواب میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مخالفت کر دی ہے۔

اسد درانی اگست 1990 سے مارچ 1992 تک پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس   کے سربراہ رہے (فائل تصویر: سوشل میڈیا)

سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالے جانے کی درخواست کے معاملے پر وزارت دفاع کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائےگئے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مخالفت کر دی ہے۔

وزارت دفاع کی جانب سے بدھ کو جمع کروائے گئے جواب کے مطابق: ’اسد درانی 2008 سے دشمن عناصر بالخصوص بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے رابطوں میں رہے، انہوں نے ایسی سرگرمیوں سے باز رہنے کا بیان حلفی بھی جمع کرایا لیکن تاحال اس پر عمل درآمد نہیں کیا، اس لیے اسد درانی کا نام ای سی ایل میں شامل کرنا بدنیتی پر مبنی نہیں ہے۔‘

مزید کہا گیا کہ ’اسد درانی 32 سال تک پاکستانی فوج کا حصہ رہے اور اہم اور حساس عہدوں پر تعینات رہے ہیں، اس لیے ان پر سفری پابندی ضروری امر ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ اسد درانی سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ان کے علم میں ہے کہ وزارت دفاع نے جواب عدالت میں جمع کروایا ہے لیکن چونکہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، اس لیے وہ ابھی اس پر کوئی رائے نہیں دے سکتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنے وکیل سے پوچھیں گے کہ کب وہ میڈیا سے بات کر سکتے ہیں تو تب ہی کوئی رائے دیں سکیں گے۔

وزارت دفاع کے جواب میں کہا گیا ہے کہ ’آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق چیف امر سنگھ دُلت کے ساتھ مل کر کتاب لکھی، جس کے جائزے سے علم ہوا کہ اس میں قومی سلامتی سے متعلق مواد موجود ہے اور کتاب کا متن آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کی بعض شقوں کی خلاف ورزی کرتا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت ان کی کورٹ آف انکوائری کا حکم دیا گیا تھا۔‘

اسد درانی کا نام 2018 میں ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا۔ قومی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث کسی بھی شخص کے خلاف کارروائی پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت ہوتی ہے، جو ریٹائرڈ فوجی یا سویلین کے خلاف ہو سکتی ہے۔

وزارت دفاع کے مطابق: ’وفاقی حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی بھی شخص کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کرے اور دہشت گردی، سنگین جرائم اور قومی سلامتی کو خطرات کے پیش نظر سنوائی کا موقع دیے بغیر نام ای سی ایل میں شامل کیا جا سکتا ہے،  لیکن چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسد درانی کو صفائی کا موقع دینے کا حکم دیا تھا، اس لیے عدالتی احکامات کی روشنی میں اسد درانی کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔‘

مزید کہا گیا کہ ’کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اس معاملے پر نظر ثانی کی اور مئی 2019 کے اجلاس میں اسد درانی کا نام ای سی ایل میں رکھنے کی تجویز دی۔‘

جواب میں مزید بتایا گیا کہ ’اسد درانی کے خلاف مقدمہ حتمی مرحلے میں ہے، اس سٹیج پر ان کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا جا سکتا۔ اسد درانی عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے بیرون ملک جانے چاہتے ہیں، انہوں نے گذشتہ برس 12 اور 13 اکتوبر کو سوشل میڈیا پر قومی سلامتی کے خلاف بیان بازی کی، جسے کسی بھی محب وطن شہری نے اچھا نہیں سمجھا۔‘

معاملہ کیا ہے؟

اسد درانی 1988 میں ایک سال کے لیے ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس اور اگست 1990 سے مارچ 1992 تک پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ رہے۔ وہ 1993 میں فوج سے ریٹائر ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھارتی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے ساتھ مل کر ’سپائی کرونیکل‘ کے نام سے کتاب لکھی جو 2018  میں شائع ہوئی۔ اس معاملے پر جی ایچ کیو میں انکوائری ہوئی تھی، جس پر ان سے تمام فوجی مراعات واپس لے لی گئی تھیں۔

واضح رہے کہ نام ای سی ایل پر ڈالنے کے معاملے پر سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے عدالت سے رجوع کیا تھا، جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی درخواست خارج کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وزارت داخلہ کے ذریعے ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے فیصلے پر نظرثانی کی جائے۔

 نام ایسی ایل سے نہ نکالے جانے پر اسد درانی نے سیکرٹری داخلہ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دوبارہ درخواست دائر کردی تھی کہ ابھی تک ان کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا گیا اور سفری پابندیاں قائم ہیں۔

عدالت نے اس ضمن میں فریقین سے جواب طلب کر رکھے تھے۔

کتاب ’سپائی کرونیکل‘ میں کیا تھا؟

پاکستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہان کی مشترکہ کتاب ’سپائی کرونیکل‘ کا بیشتر حصہ کھٹمنڈو، دبئی اور استنبول میں ملاقاتیں کرکے لکھا گیا۔ جس میں تیسرا نام بھارتی صحافی آدیتیہ سنہا کا ہے، جو دونوں سابق سربراہان کی ملاقاتوں میں موجود ہوتے تھے اور انہوں نے ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو کو کتابی شکل میں مرتب کیا۔

 2016 سے اس کتاب پر کام شروع ہوا اور اس ضمن میں دونوں سابق سربراہان نے پر تکلف ملاقاتیں کیں۔ سپائی کرونیکل میں اسد درانی نے اعتراف کیا کہ اس کتاب سے قبل بھی وہ ’را‘ کے سابق سربراہ کےساتھ دو پروجیکٹس پر کام کر چکے ہیں، جن میں سے ایک 2011 میں برلن کانفرنس اور دوسرا 2013 میں کشمیر پر ریسرچ پیپر، جو یونیورسٹی آف اوٹاوا نے شائع کیا تھا۔

کتاب میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں سول حکومتیں خودمختار نہیں ہیں۔ انہوں نے کارگل آپریشن کو جنرل مشرف کا بیوقوفانہ عمل قرار دیا جبکہ یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کے ٹھکانے سے متعلق معلومات امریکہ کو خود دی تھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان