بے رنگ زندگی گزارنے والے خانہ بدوش رنگا رنگ گھگو گھوڑے بنا کر جہاں اپنی زندگیوں میں رنگینی کے احساس کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں ان گھگو گھوڑوں سے ان کی روزی روٹی بھی جڑی ہوئی ہے۔
ملتان میں گھگو گھوڑوں کی بستی کے مکین نسل در نسل یہ گھگو گھوڑے بنا کر گزر بسر کر رہے ہیں۔
مقامی روایات کا حامل گھگو گھوڑا پرانے کاغذ اور سر کنڈے کے ٹکڑوں سے بن کر ایک منفرد شاہکار نظر آتا ہے۔
گھگو گھوڑا نہ چل سکتا ہے، نہ بول سکتا ہے اور نہ ہی سوچ سکتا ہے اب یہ خانہ بدوشوں کی مرضی ہے کہ وہ اس گھوڑے میں کیا رنگ بھرتے ہیں۔
ہمارے ثقافتی ماہرین گھگو گھوڑے کو ثقافتی علامت قرار دیتے ہیں اور ملتان کا گھگو گھوڑا فرانس اور امریکہ بھی جا چکا ہے تاہم پاکستان میں اس کی پسندیدگی کم ہے اور حکومتی سطح پر اس ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات بھی نہیں کیے جا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فن سے وابستہ افراد مایوسی کا شکار ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملتان لودھی کالونی میں خانہ بدوشوں کی جھونپڑیاں جہاں کئی خاندان مقیم ہیں ان کا ذریعہ معاش گھگو گھوڑے ہیں اور ان کی یہ بستی گھگو گھوڑوں کی بستی کے نام سے جانی جاتی ہے۔
غلام فاطمہ تیسری نسل میں سے ہیں جو گھگو گھوڑا بنا رہی ہیں۔غلام فاطمہ کے مطابق ان کے دادا، پردادا نے یہی کام کیا پھر ان کے والد نے اور اب وہ بھی یہی کام کر رہی ہیں، ’ہمارے بعد ہماری نسل بھی یہی گھگو گھوڑے بنائے گی۔‘
غلام فاطمہ کے مطابق ایک گھگو گھوڑا دس سے بارہ دن میں تیار ہوتا ہے۔
’پہلے کپڑے کو پھاڑ کر اس کی سلائی کی جاتی ہے پھر اس میں بھوسہ بھرا جاتا ہے اور اس طرح ڈھانچہ تیار کرکے کاغذ سے سجاوٹ کی جاتی ہے۔‘
ایک گھگو گھوڑا اڑھائی سو سے پانچ سو روپے میں فروخت ہوتا ہے۔