معدنیات کی دولت سے مالامال صوبے بلوچستان کے محکمہ ماہی گیری نے صوبے کے 770 کلومیٹر لمبے ساحل پر سمندری حیات اور آبی نباتات کے تنوع کے لحاظ سے عالمی حیثیت رکھنے والے 30 سے زائد ساحلی سٹیشنز پر سیمنٹ سے بنی مصنوعی مونگے کی چٹانیں (کورل ریف) لگائی جائیں گی جو مچھلیوں اور دیگر سمندری حیات کی افزائش میں مدد گار ہوں گی۔
محکمہ ماہی گیری بلوچستان کے ڈائریکٹر میرین فشریز احمد ندیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں پاکستان، ایران سرحد پر واقع جیوانی شہر کے نزدیک جیوانی کریک میں ایران کی باہو کلات اور بلوچستان کی دشت ندی کے سمندر میں سنگم کے مقام پر واقع گواتر بندر یا دہانہِ گواتر میں مصنوعی مونگے کی چٹانیں لگائی جا رہی ہیں۔
احمد ندیم کے مطابق: ’بلوچستان کا یہ علاقہ سمندری حیاتاتی تنوع کے علاوہ مچھلیوں کی افزائش کے لیے انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے، جہاں کئی اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ مگر سندھ کے ماہی گیروں کا اس علاقے میں غیر قانونی مچھلی کے شکار کے لیے ممنوع چھوٹے سائز کے جال کے استعمال کے باعث بڑی مچھلی کی خوراک سمجھی جانے والی چھوٹی مچھلی کی آبادی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس لیے ہم نے یہ علاقہ مصنوعی مونگے کی چٹانوں کے لیے چنا۔‘
مصنوعی مونگے کی چٹانوں کے اس منصوبے کے پہلے مرحلے کے لیے بلوچستان حکومت نے چار کروڑ 85 لاکھ روپے مختص کیے۔ پہلے مرحلے میں سیمنٹ اور سریے کے 330 دیوہیکل ماڈیولر بلاک بنائے گئے، جن کو بعد میں کرین کی مدد سے سمندر میں رکھا گیا۔
احمد ندیم کے مطابق: ’سیمنٹ کے ان دیوہیکل بلاکس کو مخصوص فاصلے پر ایک دائرے کی شکل میں رکھا گیا ہے تاکہ ایک تالاب سا بن جائے، جو چار مربع ناٹیکل میلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اب اس تالاب نما جگہ پر باریک سائز کے بڑے جال لے کر غیرقانونی شکار کرنے والوں کی کشتیاں داخل نہیں ہوسکیں گی جبکہ علاقے میں مچھلیاں اور دیگر سمندری حیات باآسانی محفوظ رہنے کے ساتھ انڈے بھی دی سکتی ہیں، جس سے ان کی افزائش میں مدد ملے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ پہلا مرحلہ مشاہدہ کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے، اگر یہ کامیاب ہوا اور علاقے میں مچھلیوں اور دیگر سمندری حیات کی آبادی پر مثبت اثرات ہوئے تو اگلے مرحلے میں سمندری حیات اور آبی نباتات کے تنوع کے لحاظ سے عالمی حیثیت رکھنے والے بلوچستان کے ساحل پر موجود 30 ساحلی سٹیشنوں میں سے آٹھ انتہائی اہم سٹیشن بشمول جیوانی، پشوکان، گوادر، سُربندر، پسنی، اورماڑہ، ڈام یا سون میانی اور گڈانی پر مصنوعی مونگے کی چٹانیں لگائی جائیں گی اور تیسرے مرحلے میں تمام 30 سٹیشن پر لگائی جائیں گی۔
بلوچستان ساحل کی عالمی ماحولیاتی اہیمت
کراچی کے نزدیک حب ندی سے ایرانی سرحد کے نزدیک گوادر بے تک 770 کلومیٹر لمبا بلوچستان کا ساحل عالمی سطح کی ماحولیاتی اہمیت کا حامل ہے۔
اس ساحل پر کئی شہروں کے ساتھ لاتعداد کھاڑیاں اور جزائر بھی ہیں جو مہمان پرندوں کے ساتھ کئی اقسام کے چرند پرند کا مسکن ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان ساحل سے متصل کئی اقسام کی نایاب سمندری حیات پائی جاتی ہے۔
عالمی ماحولیاتی ادارے انٹرنینشل یونین فار کنزرویشن آف نیچر(آئی یو سی این) کی جانب سے چھوٹی چٹانی پہاڑیوں پر مشتمل پاکستان کا سب سے بڑا جزیرہ قرار دیے جانے والے استولا کے جزیرے کو بلوچستان حکومت نے 2017 میں سمندری حیات کے لیے محفوظ علاقہ قرار دیا تھا۔ یہ جزیرہ ضلع گوادر کے ساحل سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
جیوانی کریک، سمندری اور زمینی آب گاہوں کے باعث عالمی طور انتہائی اہم مقام سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے جیوانی کوسٹل ویٹلینڈ کو کیسپین سمندر کے کنارے واقع ایرانی شہر رامسر میں 1972 سے شروع ہونے والے آب گاہوں کی حفاظت کے عالمی معاہدے ’رامسر کنوینشن‘ کے تحت 2001 میں رامسر سائٹ قرار دیا گیا۔
پاکستان جرنل آف زولاجی میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق جیوانی رامسر سائٹ پر 81 اقسام کے آبی پرندے پائے جاتے ہیں۔