پاکستان میں کل سے زارا نعیم کی کامیابی کا جشن منایا جا رہا ہے۔ پورا ملک ایک عورت کی تعلیمی کامیابی پر فخر کر رہا ہے۔ یہ وہی ملک ہے جہاں عورت کی تعلیم کو اتنا اہم نہیں سمجھا جاتا تھا۔
عام گھروں میں کہا جاتا تھا کہ لڑکیاں اتنا پڑھ لکھ کرکیا کریں گی، آخر میں انہوں نے چولہا ہی سنبھالنا ہے۔ ملالہ یوسفزئی کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ انہیں طالبان نے سکول جانے کی پاداش میں گولی مار کر زخمی کر دیا تھا۔ اگر آج اسی ملک میں ایک عورت کی تعلیمی کامیابی پر جشن منایا جا رہا ہے تو یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔
پچھلے دنوں شادی کے موقعے پر خواتین کو ملنے والے جہیز کی بھی بہت بات چلی۔ ہمیں جہیز سے ہمیشہ کی چڑ رہی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اصل جہیز وہ ہے جو آج زارا نعیم نے اپنی محنت اور قابلیت سے کمایا ہے۔ عورت کو اسی جہیز کی ضرورت ہے۔ اس سے ہی معاشرے میں اس کے مقام کا تعین کرتا ہے نہ کہ وہ لوہے کی پیٹیاں جو بستر، برتن اور الیکٹرانکس کے سامان سے بھری ہوتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں عورت کی عزت اس کے ساتھ آنے والے جہیز سے کی جاتی ہے۔ جو عورت اپنے ساتھ جتنا زیادہ جہیز لے کر جاتی ہے، اس کے ساتھ سسرال میں اتنا ہی بہتر سلوک ہونے کی امید کی جاتی ہے۔ جن عورتوں کے ساتھ جہیز نہیں ہوتا یا کم ہوتا ہے انہیں سسرال میں جہیز نہ لانے کے طعنے بھی دیے جاتے ہیں، مارا پیٹا بھی جاتا ہے اور کچھ کیسز میں قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔
دوسری طرف جو عورت اپنے ساتھ جہیز لے کر جاتی ہے، اس کے ساتھ سسرال والے کب تک اچھے رہیں گے اور اس کی کب تک عزت کریں گے اس کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ سسرال والے چاہیں تو اس کی قدر کر کے اس پر احسان کر دیں ورنہ اس کی لائی چیزوں کی حیثیت صفر کر کے روایتی سسرال بن جائیں۔ شادی عورت کے لیے اتنی ہی مشکل ہوتی ہے۔
ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ ہمیں اب ان فرسودہ خیالات کو ترک کر دینا چاہیے۔ عورت کو جہیز سے زیادہ تعلیم اور گھر والے کے اعتماد اور بھروسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے پاس یہ چیزیں ہوں تو وہ خود کو مضبوط تصور کرتی ہے اور اپنے بارے میں بہتر فیصلے کر سکتی ہے۔ جس طرح ہم زارا نعیم کی کامیابی پر خوش ہو رہے ہیں، اسی طرح ہمیں ہر عورت کی کامیابی پر خوش ہونا چاہیے۔ اس سے نہ صرف ان کا اپنے اوپر اعتماد بڑھتا ہے بلکہ ہمارے معاشرے کی اس فرسودہ سوچ پر بھی ضرب پڑتی ہے جو عورت کا محفوظ مستقبل جہیز میں ڈھونڈتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب جہیز کی بات ہوتی ہے تو وہیں اکثر مردوں کی طرف سے شکوہ کیا جاتا ہے کہ جہیز لینا غلط ہے تو ہم سے سیٹل ہونے کی امید رکھنا بھی تو غلط ہے۔ ہمارے پاس اچھی نوکری ہو، گاڑی ہو، گھر ہو، تب ہی ہمارا رشتہ قبول کیا جاتا ہے ورنہ انکار کر دیا جاتا ہے۔ انہیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وہ جس رشتے کی بات کر رہے ہیں، اس کی بنیاد پدرشاہی نے ڈالی ہے۔
عورت جب شادی کے رشتے میں بندھتی ہے تو وہ اپنے شوہر اور اس کے گھر والوں کے تابع ہو جاتی ہے۔ آپ اسے اس زنجیر سے آزاد کر دیں، اسے اس رشتے میں اپنی پوری ذات کے ساتھ آنے کی اجازت دے دیں تو اس کی اور اس کے گھر والوں کی طرف سے آپ سے منسوب توقعات بھی آہستہ آہستہ کم ہو جائیں گی۔
آپ عورت کے جسم، سوچ اور روح پر اپنی ملکیت جمانا چھوڑ دیں تو آپ سے بھی ’کتنا کماتے ہو‘ کا سوال نہیں کیا جائے گا۔ آپ چاہتے ہیں آپ سے نہ آپ کی کمائی پوچھی جائے، نہ اس گھر کے بارے میں پوچھا جائے جہاں آپ عورت کو لے کر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، نہ آپ کی گاڑی کا پوچھا جائے جبکہ آپ کو عورت سے ہر سوال کرنے کا حق بھی ہو اور اس کو اپنی مرضی سے چلانے کا اختیار بھی ہو۔
آپ ایک انسان کی زندگی کے مالک بننا چاہتے ہیں اور بدلے میں کوئی ضمانت بھی نہیں دینا چاہتے؟ یہ کہاں کا انصاف ہوا؟
چلیں آپ سے پوچھتے ہیں۔ کیا آپ وہ ڈگری جو آپ نے سالوں کی محنت کے بعد حاصل کی ہے اسے ایک بکسے میں بند کرنے کو تیار ہیں؟ کیا آپ اپنی وہ نوکری جو آپ نے سالوں کے تجربے کے بعد حاصل کی ہے اسے صرف اس لیے چھوڑنے کو تیار ہیں کہ جہاں آپ کی شادی ہو رہی ہے وہاں مردوں کا گھر سے باہر نکل کر کام کرنا پسند نہیں کیا جاتا؟ کیا آپ اپنے پاؤں کے نیچے زمین چھوڑ کر کسی کا ہاتھ پکڑنے کو تیار ہیں؟
نہیں؟ عورتیں یہ سب کرتی ہیں اور اپنے ساتھ لاکھوں روپے مالیت کا جہیز بھی لے کر جاتی ہیں، پھر بھی ہر گھر میں جھگڑے ہیں، نا قدری ہے اور ذلالت ہے۔ اس کا قصور وار کون ہے؟ وہ سوچ جو عورت کی سکیورٹی اس کی تعلیم کو نہیں بلکہ جہیز کو سمجھتی ہے۔
اس لیے آج زارا نعیم کی کامیابی کا جشن منائیں۔ ایک عورت کا اپنے پیروں کے نیچے اپنی زمین خود بنانا ہی اس کی اصل کامیابی ہے۔