پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی وادی نیلم کے علاقے کیل میں جب برف پڑتی ہے تو بچوں کے لیے کوئی دوسرا کھیل نہیں ہوتا، لہذا وہ سکی انگ (skiing) کرکے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بچے سکی انگ کے لیے سِٹکس کا انتظام بھی اپنی مدد آپ کے تحت کرتے ہوئے جنگل سے اس کے لیے لکڑیاں لے کر آتے ہیں اور پھر مستری سے یہ سٹکس بنواتے ہیں۔
اسی وادی سے تعلق رکھنے والے نوجوان سجاد علی بھی سکی انگ کے شوقین ہیں اور اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ سپانسر ملنے کے باعث وہ دو سال سے گلگت بلتستان میں سکی انگ کے مقابلوں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ سجاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنے اس شوق اور اس کے راستے میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں بتایا۔
بقول سجاد کیل میں بچوں کو سکی انگ کا بہت شوق ہے اور علاقے کے 70 فیصد بچے سکی انگ کرتے ہیں، لیکن بچوں کے پاس سکی انگ کی پوری کِٹ نہیں ہوتی۔
سجاد نے مزید بتایا کہ اکثر بچے گھر والوں سے چھپ کر اور چھڑی کے بغیر کھیل رہے ہوتے ہیں، جس میں گرنے کے امکانات یادہ ہوتے ہیں اور اکثر کھیلتے ہوئے بچے گر کر زخمی بھی ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ والدین بچوں کے سکی انگ کے شوق کے خلاف نہیں ہیں بلکہ حفاظتی سامان نہ ہونے کی وجہ سے ڈرتے ہیں اس لیے وہ بچوں کو روکتے ہیں کیونکہ گرنے سے سر پر چوٹ لگ سکتی ہے۔
سجاد کے خیال میں اگر یہاں کے بچوں کو سکی انگ کا حفاظتی سامان دیا جائے تو کافی بچے آگے جا سکتے ہیں۔ کیل کے درجنوں لڑکے ان ہی سلوپس پر سیکھ کر نیشنل مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
'یہاں پر سکی انگ کے لیے بہترین سلوپ ہیں۔ یہ ایسا علاقہ ہے جسے جنت کہتے ہیں۔ اپر ویلی میں نیشنل اور انٹرنیشنل سلوپ بن سکتے ہیں اور اگر حکومت ان بچوں کی سرپرستی کرے تو یہ بچے نیشنل کیا انٹرنیشنل سطح پر کھیل سکتے ہیں۔'